شذراتِ انجم…ڈاکٹر محمد وسیم انجم
drwaseemjum@gmail.com
شاعر مشرق علامہ اقبال کی زندگی میں 1931ء بہت اہم سال تھا۔ اسی سال 14 اگست کے دن انہوں نے لاہور کے ایک جلسے میں کشمیر کی تحریک آزادی کا اعلان کیا اور اسی سال 6 دسمبر کو علامہ اقبال موتمر اسلامی کی طرف سے فلسطین پر کانفرنس میں شرکت کے لیے یروشلم پہنچے۔ علامہ اقبال بیت المقدس کے قریب واقع ہوٹل فندق مرقص میں ٹھہرے۔6دسمبر 1931 ء کی شام بیت المقدس سے متصل روضۃ المعارف میں موتمر اسلامی کا تعارفی اجلاس ہوا جس کے بعد علامہ اقبال مسجد اقصیٰ میں آئے۔ پہلے انہوں نے مولانا محمد علی جوہر کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔ پھر مسجد اقصیٰ میں نماز مغرب ادا کی۔ یہیں پر تلاوت اور نعت خوانی کی ایک محفل میں شرکت کی۔ نماز عشاء بھی یہیں ادا کی اور آخر میں علامہ اقبال نے سب شرکاء سمیت ہاتھ اٹھا کر عہد کیا کہ وہ مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں بھی قربان کر دیں گے۔علامہ اقبال 27 دن تک موتمر کے اجلاسوں میں شریک رہے اور روزانہ مسجد اقصیٰ میں آ کر نماز ادا کرتے تھے۔ یہاں کئی مرتبہ انہوں نے فاتح اندلس طارق بن زیاد کے متعلق اپنے فارسی اشعار سنائے جن کا عربی ترجمہ ایک عراقی عالم دین کیا کرتے۔ علامہ اقبال قاہرہ کے راستے سے واپس ہندوستان آ گئے لیکن فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے ساتھ ان کا رشتہ تادم مرگ قائم رہا۔
3 جولائی 1937 ء کو انہوں نے رائل کمیشن کی رپورٹ کے خلاف ایک تفصیلی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے فلسطین کی سرزمین پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کی برطانوی کوششوں کی کھل کر مذمت کی اور واضح کیا کہ اس سازش کو روکنے کے لیے ترک اور عرب آپس میں اتحاد قائم کریں۔اس بیان میں علامہ اقبال نے کہا ’’دوسرا سبق یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ عربوں کو چاہیے کہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے وقت عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ موجودہ حالات میں یہ بادشاہ اس قابل نہیں کہ وہ اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کوئی صحیح فیصلہ کر سکیں‘‘۔
وفات سے چند ماہ قبل علامہ اقبال نے 7 اکتوبر 1937 ء کو قائداعظم کے نام اپنے خط میں مسئلہ فلسطین پر اپنے اضطراب کا اظہار کیا اور اُمید ظاہر کی کہ آل انڈیا مسلم لیگ فلسطین پر صرف قراردادیں منظور نہیں کرے گی بلکہ کچھ ایسا کرے کہ فلسطینی عربوں کو فائدہ بھی ہو۔ قائداعظم نے نہ صرف فلسطینیوں کے لیے فنڈ قائم کیا بلکہ 3 دسمبر 1937 ء کو پورے ہندوستان میں یوم فلسطین منایا۔اس سے قبل 19 جون 1936 ء کو بھی یوم فلسطین منایا جا چکا تھا۔ 1938 ء میں 8 فروری اور پھر 23 مارچ 1940 ء کو لاہور میں قرارداد پاکستان کے ساتھ ساتھ قرارداد فلسطین بھی منظور کی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ 1948 ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔فلسطین سے محبت ہر سچے پاکستانی کے خون میں شامل ہے کیونکہ یہ محبت ہمیں نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔ جب تک علامہ اقبال کے فلسطین کو آزادی نہیں ملتی جناح کا پاکستان کسی عرب بادشاہ یا کسی سامراجی طاقت کی خواہش کا غلام نہیں بن سکتا۔علامہ اقبال کے مجموعہ کلام ’’ضرب کلیم‘‘ میں ایک نظم ’’شام و فلسطین‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس نظم میں اقبال فرماتے ہیں۔
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا؟
چنانچہ اقبال کی رائے میں فلسطین عربوں کا ہے اور اگر کوئی فلسطینی سرزمین پر یہودیوں کے حق کی اس لیے وکالت کرتا ہے کہ وہ فلسطین سے نکالے گئے تھے تو پھر یہی حق ہسپانیہ (سپین) کے عربوں کو بھی ملنا چاہیے کیونکہ انہیں بھی ہسپانیہ سے جلاوطن کر دیا گیا تھا۔اقبال کو فلسطین کے مسلمانوں سے گہری ہمدردی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اسلام تمام رنگ و نسل، خطوں اور سرحدوں سے بالاتر ہے۔ اگرچہ اقبال کا انتقال 1938 ء میں ہوا اور اسرائیل 1948 ء میں بنا لیکن اقبال مشرق وسطیٰ میں ہونے والی پیش رفت کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔ مغربی ممالک فلسطین میں یہودیوں کو زمینیں دینے پر تلے ہوئے تھے اور ان تمام وعدوں کو پامال کر رہے تھے جو انہوں نے مذاکرات کے دوران کیے تھے۔بشیر احمد ڈار اپنی کتاب ’’انوار اقبال‘‘ میں لکھتے ہیں کہ 30 دسمبر 1919 ء کو لاہور کے مشہور موچی دروازے کے باہر ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اقبال نے ایک قرارداد پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ برطانوی حکومت نے مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کی سرزمین کے حوالے سے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کیا جائے۔ اقبال نے زور دیا کہ کسی بھی مسلم سرزمین کا کوئی حصہ کسی دوسرے کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیے۔پیرس امن کانفرنس کے بعد عالمی امن کے قیام کے لیے ایک بین الاقوامی تنظیم کی ضرورت محسوس کی گئی۔ نتیجتاً 1920 ء میں لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں آیا۔ بدقسمتی سے بڑی طاقتیں لیگ آف نیشنز کے معاملات پر غالب آ گئیں کیونکہ اس تنظیم نے جو کچھ کرنا تھا اس کے پاس اس کے نفاذ کی کوئی حقیقی طاقت نہیں تھی۔پہلی جنگ عظیم اور لیگ آف نیشنز کے قیام کے بعد مسلمانوں کے ساتھ جو کجھ کیا گیا اس سے اقبال بہت مایوس تھے۔ اس پر انھوں نے چار مصرعے کہے جو بہت سخت تھے۔ ان میں لیگ آف نیشنز کو ’’دزد چند‘‘یا قبروں سے کفن چرانے والے چند لوگ کہا۔ یہ دو اشعار ’’پیام مشرق‘‘ میں شامل ہیں۔ اقبال کی فارسی شاعری کا یہ مجموعہ پہلی مرتبہ 1923 ء میں شائع ہوا تھا۔
برفتد تا روش رزم دریں بزم کہن
دردمندان جھان طرح نو انداختہ اند
من ازیں بینش ندانم کہ کفن دزدے چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
(جہاں کا دُکھ درد رکھنے والوں نے نئی بنیاد ڈالی ہے تاکہ دنیا سے جنگ کی ریت کو ختم کیا جائے لیکن میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنائی ہے)
عثمانی ترکوں نے اپنے دور حکومت میں یہودیوں کے ساتھ بہت زیادہ رواداری کا مظاہرہ کیا تھا۔ انھوں نے یہودیوں کو مغربی دیوار (دیوار گریہ) کے سامنے عبادت کی اجازت بھی دی تھی۔ یہ قدیم دیوار یروشلم میں قبۃ الصنحرہ کے قریب واقع ہے اور مسلمانوں میں دیوارِ براق کے نام سے مشہور ہے۔ستمبر 1929 ء میں اقبال نے انگریزوں کی یہود نواز پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے ایک تقریر کی۔محمد رفیق افضل نے اپنی کتاب ’’انوار اقبال‘‘ میں اسے نقل کیا ہے۔ اقبال نے کہا کہ ترک یہودیوں کے ساتھ غیر معمولی رواداری کا سلوک کرتے رہے۔ یہودیوں کی خواہش پر انہیں مخصوص اوقات میں دیوار براق کے ساتھ کھڑے ہو کر گریہ و بکا کرنے کی اجازت عطا کی۔ اس وجہ سے اس دیوار کا نام ان کی اصطلاح میں دیوار گریہ مشہور ہو گیا۔ شریعت اسلامی کی رُو سے مسجد اقصیٰ کا سارا احاطہ وقف ہے جس قبضے اور تصرف کا یہود اب دعویٰ کرتے ہیں قانونی اور تاریخی اعتبار سے اس کا حق انہیں ہر گز نہیں پہنچتا۔لیگ آف نیشنز کا ہیڈکوارٹر سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں تھا اور برطانیہ یہودیوں کی حمایت کر رہا تھا۔ چنانچہ اقبال نے ’’ضربِ کلیم‘‘ میں اپنی نظم ’’فلسطینی عرب سے‘‘ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جان پنجۂ یہود میں ہے
محمد حمزہ فاروقی نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے کہ علامہ اقبال نے 1931 ء میں آخری چند ماہ میں لندن میں منعقدہ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی تاکہ ہندوستانی سیاست دانوں کے مطالبے کے مطابق وسیع تر خود مختاری کے لیے اصلاحات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ دن دنوں موتمر عالم اسلامی یا ورلڈ مسلم کانگریس صیہونی خطرے پر بحث کے لیے ایک کانفرنس منعقد کر رہی تھی۔ اقبال اس کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن کانفرنس چھوڑ کر یروشلم گئے۔اقبال نے دیگر کئی مواقع پر فلسطینی موقف کی حمایت کی تھی۔ مضمون کی طوالت کی وجہ سے ہم یہاں بہت کچھ بیان نہیں کر سکتے لیکن اقبال کا 7 اکتوبر 1937 ء کا خط جو محمد علی جناح کے نام لکھا گیا تھا چشم کشا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:’’فلسطین کا مسئلہ مسلمانوں کے ذہنوں کو بہت پریشان کر رہا ہے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ لیگ اس مسئلے پر ایک ٹھوس قرارداد منظور کرے گی اور قائدین کی ایک نجی کانفرنس کا انعقاد کر کے کسی ایسے مثبت اقدام کا فیصلہ کرے گی جس میں عوم بڑی تعداد میں شریک ہو سکیں۔ اس طرح لیگ بھی مقبول ہو گی اور فلسطینی عربوں کی مدد بھی ہو سکے گی۔ ذاتی طور پر مجھے کسی ایسے معاملے پر جیل جانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا جس سے اسلام اور ہندوستان دونوں متاثر ہوں‘‘۔ اقبال اس وقت بیمار تھے اور چھے ماہ کے اندر ان کا انتقال ہو گیا لیکن اس وقت وہ فلسطین کے معاملے پر جیل جانے کے لیے تیار تھے۔ اسرائیل نے غزہ کے مسلمانوں پر جو ظلم و بربریت قائم کر رکھی ہے اس پر علامہ اقبال کی روح بھی تڑپ اُٹھی ہو گی لیکن امت مسلمہ کی طویل خاموشی پر ہر دل رنجیدہ ہے اور غزہ کے مسلمانوں پر فخر ہے کہ وہ شہادت کے جذبے سے اپنی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کی غیبی مدد فرمائے ۔ آمین۔