مولانا محمدامجد خان
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیشہ اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے انبیاء کرام کو مبعوث فر مایا حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی حضرت محمد ر سول اللہؐ نے بنی نوع انسا نیت کو اللہ تعالی کی وحدا نیت کا پیغام دیا اور رشدو ہدایت کی تعلیم دی۔ حضور نبی کریم ؐ نے جب نبوت کا اعلان فر مایا تو مردوں میں سب سے پہلے آپ ؐ تصدیق کا اعزاز حضرت ابوبکر صدیق کے حصے میں آیا اور یوں آپ اسلام کی عالیشان عمارت کی پہلی اینٹ ٹھہرے۔
ربیعہ بن کعب فر ماتے ہیں حضرت ابو بکر صدیقؓ کا اسلام لانا آسمان وحی کی مانند تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ: اسلام سے قبل حضرت ابو بکر صدیقؓ کا شمار علاقہ کے بڑے تاجروں میں ہو تا تھا۔ ایک مر تبہ تجارت کے سلسلے میں آپ ملک شام تشریف لے گئے، یہاں قیام کے دوران ایک رات آپ نے خواب دیکھا کہ چاند اور سورج آسمان سے نیچے اتر آ ئے ہیں اور آپ کے گود میں داخل ہوگئے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق نے ایک ہاتھ سے چاند اور سورج کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگالیا حضرت ابو بکر نیندسے بیدار ہوئے تو اس عجیب وغریب خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے قریب ہی ایک راہب کے پاس گئے۔ اس راہب نے سارا خواب سن کر آپ سے پو چھا: آپ کہا ں سے آئے ہو؟ آپ نے فر مایا؛ مکہ سے، اس نے پھر پو چھا: کیا کرتے ہو؟ فر مایا: تاجر ہوں؟ وہ راہب کہنے لگا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمھا رے خواب کو سچ فر مادیا، تو وہ تمھا رے ہی قوم میں ایک نبی مبعوث فر مائے گا، اس کی زندگی میں تم اس کے وزیر ہو گے اور وصال کے بعد اس کے جا نشین ہو گے۔حضرت ابو بکر صدیق نے اس واقعہ کو پو شیدہ رکھا اور کسی کو نہیں بتایا اور جب حضور ؐ نے نبوت کا اعلان فر مایا تو آپ نے یہی واقعہ بطور دلیل حضور ؐکے سامنے پیش کیا اور حضور ؐ کو گلے لگایا اور پیشانی چومتے ہو ئے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اسی وجہ سے آپ ؐ نے آپ کو ’’صد یق’’کے لقب سے نوازا۔(ریا ض النضر)
آپ کی فضیلتوں میں یہ بھی ہے کی آپ کی چار پشت صحابی ہیں والدین بھی صحا بی ہیں آپ خود بھی صحا بی ہیں آپ کی اولاد بھی صحا بی ہی آپ کی اولاد کی اولاد بھی صحا بی ہیں یہ صرف آپ کی خصو صیت ہے۔آپؐ کے دو لقب ہیں صدیق اور عتیق جو لسان نبوت کے عطاء کردہ ہیں۔
صدیق کی وجہ تسمیہ:
آپ کے لقب صدیق کی وجہ تسمیہ یہ ہے، کہ واقعہ معراج کے بعد حضورؐنے قریش مکہ کو اپنی معراج سے آگاہ فرمایا، تو انہوں نے رسالت مآب ؐکی تکذیب کی۔ جب ابو بکر صدیق ؓ کو واقعہ معراج کے بارے میں پتا چلا، تو آپ نے فرمایا، میں حضورؐ کے معراج پر جانے کی تصدیق کرتا ہوں۔ چنانچہ رحمت اللعالمین ؐ نے آپ کی اس تصدیق کی وجہ سے آپ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔
امام نودی حضرت علی ؓ سے روایت نقل فرماتے ہیں، کہ ابو بکرؓ کا لقب صدیق اس وجہ سے ہے، کہ آپ ہمیشہ سچ بولا کرتے تھے۔ آپ نے حضورؐ کی نبوت کی تصدیق میں جلدی کی، اور آپ سے کبھی کوئی لغزش نہیں ہوئی۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ جب معراج میں حضورؐ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی، تو آپ نے جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا، کہ میری اس سیر کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا، آپ کی تصدیق ابو بکر کریں گے۔ کیوں کہ وہ صدیق ہیں۔
انس بن مالکؓ سے مروی ہے، کہ حضورؐ جبل احد پر گئے، اور آپ کے ہمراہ حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمانؓ بھی تھے۔ احد پہاڑ پر زلزلہ آگیا۔ رسالت مآبؐ نے اپنے پیر کی ٹھوکر لگائی، اور فرمایا۔ اے احد! ٹھہر جا، تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید موجود ہیں۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وصال پر فرمایا۔
کہ اللہ تعالی نے حضرت ابو بکر کا نام صدیق رکھا، اور پھر آپ نے سورت الزمر کی آیت ذیل تلاوت فرمائی:’’وہ جو سچائی لے کر آیا، اور وہ جس نے اس سچائی کی تصدیق کی وہی متقی ہیں۔
عتیق کی وجہ تسمیہ:
حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اسم گرامی کے بارے میں اکثر محدثین کا خیال ہے، کہ آپ کا نام عتیق تھا۔ عتیق کا مطلب آزاد ہے۔ جبکہ بیشتر محدثین کرام کا خیال ہے، کہ عتیق آپ کا لقب تھا، اور اس ضمن میں حضرت عائشہؓ روایت بیان فرماتی ہیں۔ کہ ایک روز میں اپنے حجرہ میں موجود تھی، اور باہر صحن میں کچھ صحابہ، آپؐ کے ہمراہ تھے۔ اس دوران میں حضرت ابوبکر صدیق آئے، تو آپ ؐنے فرمایا: جو لوگ کسی عتیق (آزاد) کو دیکھنا چاہیں، وہ ابوبکر کو دیکھ لیں۔حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے مروی ہے، کہ نبی کریمؐ نے حضرت ابو بکر صدیق کے بارے میں فرمایا، کہ اللہ تعالیٰ نے ابو بکر صدیق کو آگ سے آزاد کر دیا ہے۔ چنانچہ حضورؐ کے اس فرمان کے بعد آپ عتیق کے لقب سے بھی مشہور ہوئے۔ حضرت لیث بن سعد رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، کہ حضرت ابو بکر کو عتیق حسن و صورت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔بعض علما کا قول ہے، کہ چوں کہ آپ کے نسب میں کوئی بھی ایسی بات نہیں، جو عیب سمجھی جا سکے، پس سلسلہ نسب کے بے عیب ہونے کے سبب آپ کا نام عتیق مشہور ہوا۔ (الاصابہ)
جب بھی اگر عشق رسول کی تاریخ لکھی جائے تو اس کا پہلا باب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے نام سے رقم ہو گا۔ آپ حضور ؐ سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ رسول اللہؐ کی حیات مبارکہ میں آپ نے ایک عاشق صادق کی طرح زندگی بسر کی اوریہ ثابت کیا کہ آپ اپنے نبی ؐکے سچے عاشق ہیں۔ اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ہمیں ہمیشہ محبت کے راستوں میں حضرت ابوبکر صدیق کی شخصیت صف اول میں نمایاں نظر آئے گی۔ عشق رسولؐ کے باب میں ان کی سوانح حیات کا ایک ایک ورق، ان کے دن اور ان کی راتوں کا ایک ایک لمحہ کھلی کتاب کی طرح امت مسلمہ کے لئے ہدایت و رشد کا سامان فراہم کرتا ہے۔
اس کی بہترین مثال آپ نے غزوہ تبوک کے موقع پر پیش کی،جب آپ نے اپنا سارا مال و سامان حضور نبی اکرم ؐ کے قدموں میں نثار کر کے عملاً یہ بات ثابت فر مادی کہ آپ کے نزدیک جان و مال حتیٰ کے ہر چیز سے بڑھ کر حضور نبی اکرمؐ کی ذات محبوب ترین ہے۔ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ سے مروی ہے
’’آپؐنے ہمیں غزوہ تبوک کے موقع پر صدقہ کا حکم دیا،اس وقت میرے پاس مال بھی بہت زیادہ تھا، میں نے سوچا کہ آج اگر میں ابو بکر سے آگے نکل گیا تو سمجھو کہ میں آگے نکل گیا۔ پس میں اپنا آدھا مال لے آیا، آپ ؐ نے دریافت فرمایا
اے عمر اپنے اہل وعیال کے لئے کیاچھوڑا ہے؟ میں نے عرض کیا: اتناہی مال اہل وعیال کے لئے چھوڑاہے (جتنا آپ ؐ کے پاس لے آیا ہوں)۔
پھر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق اکبر ؓ آئے اور جو کچھ ان کے پاس تھا، وہ سارا سامان لے آئے، رسو ل اللہؐ نے دریافت فرمایا
اے ابو بکر ؓ اپنے اہل وعیال کیلئے کیا بچایاہے؟ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓ نے عرض کیا: ’’اللہ اور رسول ؐ (یعنی ان کی محبت) ان کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔پس میں نے کہا: اے ابو بکرؓ! میں آپ سے کسی چیز میں کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔
حضرت ابو بکرؓ کی فضیلت میں بے شماراحا دیث ہیں برکت کے لئے چند کا تذکرہ کیا جاتاہے۔
’’حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: ایک دن نبی ؐ گھر سے باہر نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ میں سے ایک آپ کی دائیں طرف تھے اور دوسرے بائیں طرف تھے اور آپ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے‘ آپ نے فرمایا: ہم قیامت کے دن اسی طرح اٹھائے جائیں گے‘‘ (ترمذی)۔ حضرت عبداللہ بن حنطب بیان کرتے ہیں: نبی ؐ نے حضرت ابوبکرؓاور حضرت عمرؓ کو دیکھ کر فرمایا: یہ میری آنکھیں اور کان ہیں‘‘ (ترمذی)۔
’’حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جس قوم میں ابوبکر موجود ہوں‘اس قوم میں ابوبکر کے سوا کسی اور کے لیے امام بننا سزاوار نہیں (ترمذی)۔
’’حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ نے فرمایا: میرے پاس ابھی ابھی جبریل آئے‘ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امت داخل ہوگی‘ پھر حضرت ابوبکرؓ نے کہا: یارسول اللہ! میری خواہش ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہوں؛ حتیٰ کہ میں بھی اس دروازے کو دیکھوں‘ تب آپ نے فرمایا: ابوبکر!سنو! تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگے‘‘ (سنن ابوداؤد)۔
’’حضرت سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐنے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے مشورہ کیا‘ صحابہ نے عرض کی: حضرت ابوبکر کی رائے صحیح ہے‘رسول اللہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو ابوبکر کا خطا پر ہونا پسند نہیں ہے‘‘(مجمع الزوائد)۔حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے ہر چیز کا جوڑا (مثلاًکپڑے‘ گھوڑے وغیرہ)اللہ کی راہ میں خرچ کیے‘ اس کو جنت کے (مختلف)دروازوں سے بلایا جائیگا‘ (کہاجائے گا:)اے بندہء خدا! ادھر آ یہ بہتر ہے‘سو جو نمازی ہوگا‘ اسے بَابْ الصَّلٰوٰۃ سے‘ جو مجاہد ہوگا‘ اسے بَابْ الجِہَادسے‘ جو صدقہ دینے والا ہوگا‘ اسے بَابْ الصَّدَقَہ سے اور جو روزے دار ہوگا‘ اسے بَابْ الصِّیَام اور بَابْ الرِّیَان سے بلایا جائیگا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کی:(یارسول اللہ!)جس شخص کو ان دروازوں میں سے کسی ایک سے بھی بلالیا جائے گا‘اس کی تو کوئی حاجت باقی نہیں رہے گی(یعنی اصل مقصود تو جنت میں داخل ہونا ہے‘ اگر ایک دروازے سے بھی بلا لیا گیا توکامیاب ہے)‘پھر انہوں نے پوچھا: یارسول اللہ! کوئی ایسا بھی (خوش نصیب)ہے‘ جسے ہر دروازے سے بلایا جائے گا‘آپ نے فرمایا: ہاں! اور(ابوبکرؓ!) مجھے یقین ہے کہ تم انہی میں سے ہو‘ (صحیح البخاری)‘‘۔
: ’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں:محمدرسول اللہؐ نے فرمایا: جنت میں ایک ایسا شخص داخل ہوگا‘ جسے جنت کے ہر گھر والے اور ہر بالا خانے والے کہیں گے: مرحبا‘ مرحبا‘ ہمارے پاس آئیں‘ ہمارے پاس آئیں‘ حضرت ابوبکر ؓنے عرض کی: یارسول اللہؐ! وہ شخص بہت کامیاب اور سرخرْو ہوگا‘ آپ ؐ نے فرمایا: کیوں نہیں! اورابوبکر! وہ تم ہی ہوگے‘ (صحیح ابن حبان:)‘‘۔
غار ثور میں حضور نبی کریمؐ کے ساتھ آپ نے جو تین دن اور تین راتیں رفاقت اورخدمت میں گذاریں وہ اعزاز اور کسی کے حصے میں نہیں آیا پھر آنحضرت ؐ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں آپ کو مصلے پر کھڑا کیا اور آنحضرت کی حیات مبارکہ میں آپ نے سترہ نمازیں پڑھائیں۔آنحضرتؐ کے وصال کے بعد امت کو آپ ہی نے سنھبالادیا۔ فتنہ ارتداد اور مانعین زکوۃکو سیدھا راستہ دکھایا عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے صحابہ کرام کا اجماع بھی آپ کے دور امارت میں ہوا اور مسیلمہ کذاب اور اسکے پیروکاروں کو جہنم واصل کرکے وہ کر دکھایا جو اتنے عظیم رسول کے جانشین اور خلیفہ کے جانشین کے شان کے مناسب تھا۔اللہ تعالی امت مسلمہ کی طرف سے آپ کو بہترین جزاء سے نوازے اور کل ہمارا حشر صدیق اکبر کے قدموں میں فرمائے آمین۔