کون ایمانداری سے کام کرتاہے

احساس زندگی کا محور ہے جس کا  نظام حیات چلتا ہے اگر احساس نکال دیے تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں، یہ احساس ہی ہے جو ہمیں رشتوں کا تقدس اور ذمہ داریوں سے اگاہی اور ایک با مقصد زندگی کا تصور دیتا ہے، احساس اور ضمیر کا آپس میں گہرا تعلق ہے بلکہ ایک لحاظ سے تو یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں جس معاشرے سے احساس ختم ہو جائے وہ ایک بے ہنگم ہجوم کی صورت اختیار کر جاتا ہے جہاں صرف اپنی ذات اور نفسی خواہشات کی اہمیت رہ جاتی ہے۔ یہ احساس ہی ہے جو خود احتسابی اور ذمہ داری سے آشنا کرتا ہے، ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر آج پستی کا شکار ہے جس کی بڑی وجہ تیزی سے  بڑھتی ہوئی بے حسی بھی ہے اگر ہم ہر طرف نظر دوڑائیں تو ذاتی سوچ، مجموعی سوچ اور مفاد پر حاوی نظر آتی ہے۔ لالچ، مفاد پرستی اور ہوس پر کسی کا مطمع نظر نہیں محسوس ہوتا ہے، ہمارا معاشرتی اور خاندانی نظام دنیا جہاں کے لیے ایک نمونہ ہوا کرتا تھا، جہاں احساس اخوت تقدس رواداری سب نمایاں اقدار ہوتی تھیں، لوگ اس نظام پر نہ صرف رشک کیا کرتے تھے بلکہ تقلید کی کوشش بھی کرتے تھے، یہ اقدار ہماری سماجی اقدار سے بھی مطابقت رکھتی تھی۔
 آج بدقسمتی سے معاشرے سے احساس ختم  ہوتا جا رہا ہے، ہم دوسرے پر تنقید بھی کرتے ہیں اور بہتری کی توقع بھی رکھتے ہیں، مگر خود ایسا کرنے کو تیار نہیں، ہر کوئی یہ سوچتا ہے ، ہر کوئی بدانتظامی اقربہ پروری ،بدعنوانی اور اختیار سے تجاوز کی شکایات کرتے ہیں مگر ایسا کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ وہ اپنی اپنی حیثیت میں خود بھی تو حکومت کا حصہ ہے اگر کسی سرکاری ہسپتال میں صفائی کا نظام ٹھیک نہیں، انتظام و انصرام خراب ہے، مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں تو ذمہ دار اس ہسپتال کا انچارج ہے جو تمام مرعات سے لطف اندوز ہو رہا ہے یا پھر صوبے کا وزیراعلی ،اگر مریضوں کے وارڈز میں لگے ایئر کنڈیشن انتظامیہ سے متعلق افراد کے گھروں میں لگے ہوں تو کون مورود الزام  ٹھہرائے گا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر وہ ہی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نجی محفلوں میں حکومت کو برا بھلا کہہ رہا ہوگا جبکہ اپنی ذمہ داریوں کے متعلق وہ جواب دینے کے لیے تیار نہیں، اگر کسی عوامی پارک میں جھولا گر جاتا ہے تو ذمہ دار متعلقہ محکمہ یا ضلع کا سربراہ  ڈی سی او ہے یا صوبے کے انتظامی سربراہ یقینا سب سے اعلی عہدے پر فائض اس سے کبھی بری الذمہ نہیں ہو سکتا مگر ہر حکومتی انتظامی سربراہ بھی حکومت کا حصہ ہی ہوتا ہے اگر انتظامی سربراہ اپنی  ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ایمانداری سے کام کرے تو حالات ایسے نہ ہوں جیسے کہ ہمیں نظر آتے ہیں، بے حسی کا عالم تو یہ ہے کہ اپنے سامنے غلط کام ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی ہم اسے نہیں روکتے ، جبکہ ہم میں سے کچھ تو ایسا کرنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں، اختیارات کا نہ ہونا، فنڈز کی عدم دستیابی یا سیاسی مداخلت جیسے جواز بھی بہرحال موجود رہتے ہیں۔
 مگر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ میسر اختیارات اور وسائل کے اندر رہتے ہوئے بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے، خالص طورپر انتظامی معاملات میں تو ایسا ہر وقت ممکن ہوتا ہے، ملازمین موجود ہیں، مراعات بھی لے رہے ہیں مگر کام کرنے کو تیار نہیں کیونکہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، دوسروں پہ تنقید ہمارے ہاں سب سے آسان کام نظر اتا ہے مگر مقصد تنقید بہت کم نظر آتی ہے۔ میڈیا بھی ہر وقت کمزوریوں اور منفی پہلوؤں کو اجاگر کرتا نظر آتا ہے کیونکہ اس کا مقصد بھی ذاتی تشہیر اور ریٹنگ میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ 
ہمارے ہاں خبر کا مطلب ہے منفی چیز جبکہ معاشرے میں ہر وقت بہت سے اچھے کام بھی ہو رہے ہوتے ہیں مگر یا تو وہ خبر نہیں بنتے اور اگر بنتے بھی ہیں تو ایسی خبر ڈھونڈنی پڑتی ہے ۔سکولوں اور کالجوں میں نفسیات اساتذہ اگر اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کرتے تو انہیں کون سمجھائے یا بتائے کیونکہ انہیں تو خود ایک مثال ہونا چاہیے اگر سکول یا کالج کا پرنسپل اپنا کام ٹھیک طریقے سے کرے تو نظام تعلیم میں نظر آنے والی بہت سی خامیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں بولنا چاہیے کہ سکول اور کالجز بھی حکومت کا حصہ ہوتا ہے ہر کوئی اپنا حق تو مانگتا ہے اور اس سے آشنا بھی ہے مگر ذمہ داریوں کا احساس کرنے کو تو تیار نہیں ،حقوق حاصل کرنے کے لیے تو احتجاج بھی ہوتے ہیں اور مظاہرے بھی کیے جاتے ہیں مگر کبھی کسی نے ذمہ داریوں اور فرائض کی بجا آوری کے لیے بھی مظاہرہ کیا ہے اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کرنا بھی ایک بہت بڑی بددیانتی ہے جو بنیادی طور پر دوسری برائیوں کو جنم دیتی ہے، نہ صرف یہ کہ ہمیں اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی ان کی  ذمہ داریوں اور فرائض سے اگاہ کروانا ہے، تبھی معاشرہ ٹھیک ہوگا اور ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ لوگ جو مراد لیتے ہیں مگر اپنا کام نہیں کرتے ان کے لیے ایسا کرنا مشکل ہو جائے گا، اس سلسلے میں سب سے اہم کردار میڈیا اور سول سوسائٹی ادا کر سکتی ہے جو کہ ایسا شعور  پیدا کر سکتے ہیں جہاں پہ بے حس لوگوں کا رہنا مشکل ہو جائے حکومت وقت کا بھی فرض ہے کہ کام چور اور اپنے فرائض سے پہلو تہی کرنے والے اعلی عہدے داروں کو قرار واقعی سزا دے جو کہ دوسروں کے لیے سبق آموز، ہر محکمے میں قوانین بھی موجود ہے طریقہ کار بھی ہے ۔ ضرورت صرف اس پر عمل کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کی ہے یہ بے حسی ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے جس کو جتنی جلدی ختم کیا جائے اتنا بہتر ہے اور ورنہ مرض لاعلاج ہو جائے گا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن