سعودی عرب میں بیاد قائد مذاکرہ و مشاعرہ

Jan 05, 2024

فرحت عباس شاہ

 ویژن 2030ء کے تحت تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتا سعودی عرب دنیا کی بڑی طاقتوں کو حیران کر رہا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان کی سوچ کے مطابق عظیم سے عظیم ترین سعودی عرب کے تصور کی عملی تشکیل اور ارتقاء محسوس بھی ہوتا ہے اور نظر بھی آتا ہے۔ میرے لیے بالکل غیرمتوقع تھا جب ہمارے شاعر یوسف علی یوسف نے بتایا کی تخیل ریاض کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے قائد اعظم محمد علی جناح سیمینار اور انٹرنیشنل مشاعرے میں شرکت کے لیے مجھے دعوت دی گئی ہے۔ یہ دعوت نامہ میرے لیے غیرمتوقع ہونے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی باعث مسرت تھا۔ تخیل کے روح رواں منصور محبوب سے میری ملاقات لاہور میں ہوچکی تھی اور میں انکی شخصیت اور شاعری کے معیار سے آگاہ بھی ہوچکا تھا لیکن صابر امانی، شاہد خیالوی اور راشد محمود سے ملاقات کا تجسس بھی کم نہیں تھا۔ریاض ائرپورٹ پر منصور محبوب اور راشد محمود منتظر تھے۔ محبت بھرا استقبال کیا گیا۔ مجھے ائیرپورٹ سے سیدھا ایک عربی ریستوران پر لے جایا گیا جہاں شاہد خیالوی ، پیر اسد کمال ، صابر امانی اور ان کی چھوٹی سی گڑیا بیٹی جانم بھی آن ملے۔ جانم کی فارسی سمجھ میں نہ آنے کے باوجود کانوں میں رس گھولتی رہی۔ ان سب احباب کی شخصیات کی چندمشترکہ خوبیوں نے مجھ پر فوری اور گہرا تاثر قائم کیا۔ ایک تو یہ سب کمال کے صاحبان علم و بصیرت ہیں اور دوسرا بلا کے بذلہ سنج۔ شعر پہ شعر اور فقرے پہ فقرے میں جو برجستگی مجھے ان تمام دوستوں کے ہاں دکھائی دی اسکی مثال کم کم ہی ملتی ہے۔ مجھے یہ بھی بہت خوشی ہوئی کہ یہ سب دوست نظریہ کے حامل شعراء ہیں۔ پوری دنیا کے حالات کی نبض پہ ان کا ہاتھ ہونا اور پاکستان کے لیے دل بن کے دھڑکنا اب شعراء کے ہاں بہت کم رہ گیا ہے۔ اپنی جیب سے خرچ کرکے ادب اور نظریے کا پرچار کرنیوالے یہ دوست کاروبار سمجھ کے مشاعرے کروانے اور مشاعرے پڑھنے والوں سے یکسر مختلف بھی اسی لیے ہیں اور اسی لیے انکی شخصیات اور تخلیقات میں اخلاص اور تاثیر وبرکت بھی ہے۔ سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض میں جس طرح برس ہا برس سے ان دوستوں نے ادب کی آبیاری کی ہے اسکے ثمرات مجھے مشاعرے اور مذاکرے کی شب نظر آئے۔ 
 تخیل نے قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم ولادت کے حوالے سے اس بین الاقوامی مشاعرے اور مذاکرے کا اہتمام کیا تھا جس میں پاکستان، بحرین اور کویت کے شعراء کرام اور دانشوروں نے خصوصی شرکت کی۔ تخیل ادبی فورم نے ایک نئی روایت یہ قائم کی ہے کہ قومی مشاہیر کے ایامِ ولادت پر منعقد کردہ تقریبات میں ان مشاہیر کی خدمات پر علمی مذاکرے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ مذکورہ تقریب کی صدارت کے اعزاز سے مجھ خاکسار کو نوازا گیا جب کہ مہمان خصوصی کراچی سے تشریف لائے نہایت عمدہ و اعلیٰ اور ممتاز شاعر اور کئی کتابوں کے مصنف دلاور علی آزر تھے۔ دلاور علی آزر کا شمار اس وقت پاکستان کے صف اول کے غزل گو نوجوان شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی غزلوں کے مطلعے بڑے بڑے پرندہ باز شاعروں کے پر جلانے کے لیے کافی ہیں۔ نظامت کے فرائض تخیل کے تیزدھار نثر نگار اور تخیل کے جنرل سیکرٹری راشد محمود نے انجام دیے، تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے کیا گیا جس کی سعادت حافظ عبدالواحد نے حاصل کی۔ 
مشاعرے سے پہلے تحریک قیام پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کے کردار پر ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ اس مذاکرے میں شہر الریاض کے دانشوارن نے شرکت کی جن میں تخیل کے سرپرست اعلیٰ ممتاز و منفرد شاعر منصور محبوب، نائب صدر اور فوک اور کلاسیکی شاعری کے امتزاجی مزاج سے نئے شعری افق تشکیل دینے والے ممتاز شاعر صابر امانی، پاکستان پیپلز پارٹی ریاض کے صدر احسن عباسی اورمجلسِ پاکستان کے جنرل سیکرٹری رانا عمر فاروق شامل تھے۔ مذاکرے کا موضوع تھا ’’ تحریک آزادی ہند تحریک قیام پاکستان میں کیسے تبدیل ہوئی ‘‘ ضمنی عنوان کے تحت یہ بھی زیر بحث لایا گیا کہ وہ کیا محرکات تھے جنہوں نے پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کی۔ مذاکرے میں قائد اعظم محمد علی جناح کا مدبرانہ کردار زیر گفتگو رہا۔ اس موقع پر حیدرآباد، جونا گڑھ اور کشمیر کے پاکستان میں شامل نہ ہوسکنے کی وجوہات پر بھی مفصل گفتگو کی گئی۔ مذاکرے کے اختتام پر بطور چیف سپیکر خاکسار نے اپنے خطاب میں گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ملت اور قوم کے فرق کو بیان کیا اور پاکستان اور بھارت کے حالیہ ریاستی خدوخال اور تعلق کی نوعیت پر گفتگو کی۔ 
بعد ازاں محفل مشاعرہ منعقد ہوئی جس کے مہمانانِ اعزاز بحرین سے تشریف لانے والے ریاض شاہد اور کویت سے عماد بخاری تھے۔ دیگر شعرا اکرام میں یاسر عرفات ، کامران ملک، منیب فیاض، یاسر یونس، شاہد ریاض، ذیشان ناشر، ساجد محمود، شہباز صادق، پیر اسد کمال، فیصل اکرم گیلانی اور منظر ہمدانی تھے۔ 
خصوصی کلام پیش کرنے والوں میں تخیل کے اعلٰی عہدیداران رہتل اور وسیب کے خمیر اور دھرتی کی دانائی کی مہک سے اٹھنے والی غزل کے خالق شاہد خیالوی تھے۔ جن کے ہمراہ صابر امانی اور سرپرست اعلیٰ منصور محبوب نے حاضرینِ محفل کو اپنے کلام سے خوب محظوظ کیا۔ تقریب کے مہمانان ِاعزاز میں شامل پاکستان کے استاد شاعر باقی احمد پوری کے فرزند نوجوان شاعر عماد بخاری نے سہل ممتنع اور چھوٹی بحور میں غزلیں سنا کے سماں باندھ دیا اور بحرین سے تشریف لائے یاروں کے یار ریاض شاہد نے بے پناہ داد وصول کی۔ فیصل اکرم اور پیر اسد کمال تو ویسے ہی ریاض میں اتنے ہی مقبول ہیں جتنے اسلام آباد میں افتخار عارف اور کشور ناہید۔ ’’ہر شخص تیرا نام لے ہرشخص دیوانہ ترا‘‘کے مصداق ان لوگوں نے پورے ریاض کی محبت جیت رکھی ہے۔ مہمان خصوصی دلاور علی آزر نے اپنے بہترین کلام سے سامعین کے دل موہ لئے۔ بطور صدر محفل راقم نے بھی حسب توفیق شعر سنائے۔ پروگرام میں فیصل آباد کی سماجی شخصیت زاہد ملک اور پہچان پاکستان اخبار کے چیف ایڈیٹر ذکیر بھٹی نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ 
مشاعرے کے اختتام پر راقم الحروف کو تخیل کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نواز گیا اور دلاور علی آزر کو سال کے بہترین شاعر کا ایوارڈ پیش کیا گیا۔ صحافتی خدمات کے اعتراف میں تخیل کے میڈیا کوارڈینیٹر کامران ملک کو ان کی صحافتی خدمات پہ شیلڈ دی گئی۔ یہ بلاشبہ قومی ، علمی اور ادبی ہر لحاظ سے ایک نہایت مثبت اور تعمیری ایونٹ تھا۔ اس پورے پروگرام میں اگر کوئی شے مسنگ تھی تو وہ تھا پاکستانی سفارتخانہ۔ کسی بھی ملک کی سفارت کاری جہاں بیرونی دنیا سے تعلق کا سرچشمہ ہوا کرتی ہے وہاں اس ملک میں مقیم اپنی کمیونٹی کو وطن کے وارث ہونے کا احساس دلائے رکھنا بھی ہوتا ہے ۔ یہ شعبہ جتنا اہم ہے ہم نے اسے اتنا ہی سرسری لے رکھا ہے۔ ہماری ریاستی کمزوریوں میں سفارتی کمزوری کا بھی پورا پورا عمل دخل ہے۔ اس پہ درد ناک بات یہ ہے کہ ایک سال سے قائم نگران حکومت سے یہ گلہ بھی نہیں کیا جاسکتا کہ حضور ایک نظر ادھر بھی۔

مزیدخبریں