آج قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ ہے ان کے نظریات اورفلسفہ سیاست کی تجدید کا دن ہے۔ اور ان کی عظیم قربانی کی امانت کو یاد کرنے اور اس کے تحفظ کا دن ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید ایک روشن ستارے کی طرح تھے، ہم ان کے اصولوں کو اپنے لیے مشعل راہ سمجھتے ہیں۔ جناب بھٹو کے پانچویں یوم شہادت پر لندن سے ایک عظیم اجتماع ہوا۔ اس میں تقریر کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا۔
’’میں بھٹو کی بیٹی ۴؍اپریل کے زخم کے بعد بھی موجود ہوں، اپنے بابا کی روح اور پاکستان کے عوام سے عہد کرتی ہوں کہ اپنی تمام تر صلاحتیں غاصبیت کے خلافِ قانون ، باطل کے خلاف ،حق خودارادی کے خلاف نیکی کی فتح کے لیے وقف کروں گی۔میں چاہتی ہوں کہ آپ ہر سال اس عہد میں شامل ہوں کہ ہم اس عظیم مقصد کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور پاکستان کے یزید کا تخت الٹ کر دم لیں گے۔ 4؍اپریل 1979ء کی رات پاکستان کے یزید نے ہماری تاریخ کے حسین کو پھانسی دے دی۔ ہم ایسے کربلاسے گزرے۔ ہم نے جبروتشدد پر مبنی ریاستی ڈھانچے کو تشکیل پاتے دیکھا ہے۔ ہم وطن کو غاصبیت اور مارشل لاء کے تازیانوں سے ہمیشہ کے لیے نجات دلائیں گے۔‘‘
محترمہ بے نظیر بھٹو جنوری 1974ء کو لندن پہنچی تھیں اور پہلا موقع تھا کہ4اپریل کو قائدعوام کی پانچویں برسی پر وہ آزاد تھیں۔ 4؍اپریل کی شب ایک غاصب فوجی آمر نے منتخب وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کو رات کے اندھیرے میں شہید کرکے پاکستانیوں کی جمہوری امنگوں اور مستقبل کو قتل کر دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید تاریخ کی عظیم شخصیات میں ایک قد آور شخصیت تھے جو وفاق پاکستان کے استحصال زدہ عوام کے مقدر کو بدلنے کے لیے وقت کے افق پر ابھرے جیسا کہ انہوں نے خود کہا تھاکہ میں ایک انقلابی اور شاعر ہوں۔وہ اپنی آخری سانس تک انقلابی رہے۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو ایک عظیم مدیر تھے ۔ انہیں اپنے عوام پر یقین اور ملک پر فخر تھا۔ خارجہ پالیسی میں ان کی لاتعداد کامیابیاں عوام نہیں بھول سکتے۔ انہوں نے دنیا کی بڑی طاقتوں اور تیسری دنیا کے ملکوں کے ساتھ غیرجانبدارانہ حیثیت سے تعلقات پیدا کیے۔ کراچی میں روس کے تعاون سے سٹیل ملز کا قیام ، تیل کی تلاش انکی کامیاب خارجہ پالیسی کا مظہر ہیں۔ چین کے ساتھ دوستی اور بہتر تعلقات کے وہ معمار ہیں۔ ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ ان کا زندہ کارنامہ ہے۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو جان کی پرواہ کیے بغیر عوام کے پاس گئے، انکے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ اور آخری دم تک ان کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ غربت اور استحصال پاکستان کے عوام کا مقدر نہیں وہ سیاست کو ڈرائنگ روم سے عوام تک لے آئے۔ ان کا ایک لازوال کارنامہ 1973ء کا آئین ہے جس کی بدولت وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلقات کی پائیدار بنیاد فراہم کی گئی۔ پاکستان کے عوام بھٹو شہید کی طاقت تھے۔ بھٹو شہید نے ظلم کی قوتوں سے سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا اور شہادت قبول کر لی۔
وہ اب عوام کے ہیرو بلکہ تاریخ کے ہیرو بن گئے، آج وہ عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔ اور ملک بھر میں انکی سالگرہ منائی جا رہی ہے۔جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے حالات کی جو تصویر کشی کی آج قوم کو وہی حالات درپیش ہیں۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے ،فرقہ واریت، دہشت گردی اور قتل معمولی بن چکے ہیں۔ انسانی زندگی اور انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے۔
بیگم نصرت بھٹو نے اپنے شوہر اور قائدعوام کی شہادت پر خون دل سے انگلیاں ڈبو کر تحریر کیا:
’’ہمارے پیارے اور محترم کا بہیمانہ قتل ہماری زندگی کا غم ناک ترین سانحہ ہے ۔ ان کی زندگی اعلیٰ ظرفی، عظمت ، ہمدردی اور فراخدلی کا بہتا ہوا دریا تھی۔ انتہائی ایذارسانی، نفرت انگیز، انتقامی کارروائیوں اور موت کی کال کوٹھڑی میں قیدوبند کی صعوبتوں کے باوجود انہوں نے اتنی ناقابل شکست قوتِ ارادی اور ناقابلِ تسخیر جذبے سے دشمن کے ناپاک عزائم کو پامال کر دیا۔وہ ایک انتہائی لاثانی اور گراں پایہ شخصیت تھے۔ انہوں نے عوام سے غداری کرنے کی بجائے جامِ شہادت نوش کرنا پسند کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو مہرومحبت کی ایک تاباں شخصیت تھے۔ ان کی ہستی کروڑوں بدنصیب انسانوں کے لیے جو اتھاہ گہرائیوں میں زندگی گزار رہے تھے ایک خداداد نعمت تھی جو عوام کی نامراد زندگی سے امید ،حوصلے، روشن مستقبل ،خوشحال زندگی اور مسکراہٹوں کا ایک روشن شاہکار تھے۔ ان کے کارناموں نے ریاستی امر بنا دیااور قائدعوام کا مزار عوام کی عقیدت کا مرکز ہے۔
٭…٭…٭
ایک عظیم لیڈر
Jan 05, 2024