انتخابات 8 فروری کو، کنفیوژن نہ پھیلائی جائے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (اعظم گِل/خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ منافق کافر سے زیادہ خطرناک ہے۔ آمروں نے صادق و امین کی شرط اپنے لیے کیوں نہ رکھی؟۔ محض جھوٹ بولنے پر تاحیات نااہلی کیوں؟۔ تاحیات نااہلی دینے کی کوئی تو منطق ہونی چاہیے۔ غیر مسلم بھی صادق و امین ہو سکتے ہیں۔ توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ تاحیات نااہلی کا فیصلہ اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ 8  فروری کو الیکشن ہو رہے ہیں کوئی کنفیوژن نہ پھیلائی جائے، کوشش ہے  کیس کا فیصلہ جلد کیا جائے۔ سماعت آج پھر ہوگی۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 7 رکنی بینچ نے 62 ون ایف کے تحت  نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ عدالتی کارروائی کو سپریم کورٹ یوٹیوب چینل پر لائیو دکھایا گیا۔ ساڑھے گیارہ سے شروع ہونی والی عدالتی کارروائی شام چھے بجے تک جاری رہی۔ سماعت کے آغاز پر ہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے تین عدالتی معاونین مقرر کیے تھے، ریما عمر نے اپنا تحریری جواب بھجوایا ہے جس کے بعد عدالتی معاون کے جواب کی نقول فریقین کو فراہم کر دی گئیں۔ جبکہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ میں اپنی گزارشات 30 منٹ میں مکمل کر لوں گا۔ فیاض احمد غوری اور سجاد الحسن کے وکیل خرم رضا نے دلائل کے آغاز پر ہی عدالتی دائرہ اختیار پر سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ یہ کیس کس دائرہ اختیار پر سن رہی ہے؟، کیا یہ کیس 184 تین کے تحت سنا جا رہا ہے یا 187 کے تحت؟۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنا کیس چلائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کورٹ آف لاء کی بات کرتا ہے،  آرٹیکل 99 ہائیکورٹ کو آرٹیکل 184تین سپریم کورٹ کو ایک اختیار دیتا ہے، سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیار دیتا ہے؟۔ وکیل خرم رضا نے کہا کہ ٹریبونل سے آنے والے فیصلے کیخلاف کیس سپریم کورٹ اپیل کے دائرہ اختیار میں سنتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے وکیل سے اتفاق کرتے ہوئے سوال اٹھائے کہ کیا  62ون ایف ٹریبونل کو بھی تاحیات نااہلی کا اختیار دیتا ہے؟۔  کیا تاحیات نااہلی کا یہ اختیار سیدھا سپریم کورٹ کے پاس ہے؟۔ وکیل خرم رضا نے عوامی نمائندگی ایکٹ کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی ہی معروضات کی نفی کرنے والی بات کر رہے ہیں، جب 62 ون ایف کے تحت کوئی  ٹریبونل نہیں کرتا تو سپریم کورٹ کیسے کر سکتی ہے؟۔ کیا سپریم کورٹ الیکشن معاملے میں اپیلٹ فورم کے طور پر کام نہیں کرتی؟ اضافی اختیار تاحیات نااہلی والا یہ کہاں لکھا ہے؟۔ خرم رضا نے کہا کہ سپریم کورٹ ڈیکلریشن دے سکتی ہے، جن کیسز میں شواہد ریکارڈ ہوئے ہوں وہاں سپریم کورٹ ڈیکلریشن دے سکتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پھر تو آپ سمیع اللہ بلوچ کیس کی حمایت نہیں کر رہے۔ جس کے جواب میں خرم رضا نے کہا کہ میں ایک حد تک ہی اس کیس کی حمایت کر رہا ہوں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئینی عدالت اور سول کورٹ میں فرق کو نظر انداز نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ، ہائیکورٹ آئینی عدالتیں ہیں جہاں آئینی درخواستیں دائر ہوتی ہیں، الیکشن کمیشن قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتا ہے، اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کرسکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہوگا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایک الیکشن میں کوئی گریجویٹ نہ ہونے پر نااہل ہوا، اگلی بار گریجویشن کی شرط ہی نہیں تواس وقت وہ نااہل کیسے ہو گا؟۔ ایک شخص دیانتداری سے کہتا ہے وہ میٹرک پاس ہے اس پر وہ اگلے الیکشن میں بھی نااہل کیسے ہے؟، آپ نے جو تفریق بتائی اس سے متفق نہیں، ایسے تو کوئی غیر ملکی بھی الیکشن لڑ کر منتخب ہو سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ہدایت کی کہ آپ آرٹیکل 62 اور 63 کی پہلی پہلی سطر پڑھیں جس پر وکیل نے کہا کہ عدالت نے صرف 62 ون ایف کی تشریح کرنی ہے۔ جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہتے ہیں ہم 62 اور 63 کو ملا کر نہیں تشریح کر سکتے، قتل اور اغوا جیسے کیسز میں تو بندہ دوبارہ الیکشن کا اہل ہو جاتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی ڈیکلریشن کسی نہ کسی قانون کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، وہ قانون اب کہتا ہے یہ مدت 5 سال ہو گی۔ جس پر وکیل نے بتایا کہ پارلیمانی بحث میں تسلیم کیا گیا 62 ون ایف مدت پر خاموش ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نااہلی کی یہ شقیں ایک ڈکٹیٹر نے شامل کیں درست یا غلط؟ یا تو ہم پھر ڈکٹیٹرشپ کو ٹھیک مان لیں، ایک ڈکٹیٹر آیا، دوسرا آیا، تیسرا آیا سب کو اٹھا کر پھینک دیا، منافق کافر سے بھی زیادہ برا ہوتا ہے، کافر کو پتہ نہیں ہوتا، منافق سب جان کر کر رہا ہوتا ہے، پارلیمنٹ نے ایک قانون کی کتاب بنا کر ہمیں دی، ایک شخص ٹہلتا ہوا آتا ہے کہتا ہے نہیں یہ سب ختم ، آمروں نے صادق و امین والی شرط اپنے لئے کیوں نہ ڈالی؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین کا تقدس تب ہو گا جب اسے ہم مانیں گے، یا تو ہم کہہ لیتے ہیں کہ بندوق کا تقدس مانیں گے، یہاں بیٹھے پانچ ججز کی دانش ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں سے زیادہ کیسے ہو سکتی ہے؟ جب تک کوئی جھوٹا ثابت نہیں ہوتا ہم کیوں فرض کریں وہ جھوٹا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تاحیات نااہلی سمیع اللہ بلوچ کیس میں لکھی گئی، وہ فیصلہ آج میں لکھ رہا ہوتا اور مدت 2 سال لکھتا تو وہ بھی ایک درست فیصلہ ہوتا؟۔ جنرل ایوب نے آکر سب کو باہر پھینک دیا اور اپنے قوانین لائے، پارلیمنٹرینز نے آئین بنایا، ڈکٹیٹروں نے آپ کو سیاست دانوں، آئین کو باہر پھینک دیا، الیکشن 8 فروری کو ہونے جا رہے ہیں، ایک آر او کوئی بات کرے گا دوسرا کوئی اور، کیا آپ کنفیوژن پھیلائے رکھنا چاہتے ہیں، ہم نے یہ کیس اس لئے لگایا کہ سب کیلئے ایک وضاحت آ جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ کی دانش ہم سے زیادہ ہے یا کم؟۔ جس پر وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے تحت مدت کا تعین کر سکتی تھی۔ وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمان نے تسلیم کر لیا کہ آئین خاموش ہے تو بھی آئینی ترمیم ضروری تھی جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمان نے سزا دینی ہوتی تو آرٹیکل 63 کی طرح 62 میں بھی شامل کر دیتی۔ جبکہ وکیل نے کہا کہ پارلیمان نے نااہلی کو برقرار رکھا ہے لیکن اس کی مدت کا تعین نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے کی کوئی نہ کوئی منطق ہونی چاہئے۔ خرم رضا نے بتایا کہ دو سال نااہلی کا آئین میں کہیں نہیں لکھا ہوا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے تو تاحیات نااہلی کا بھی کہیں نہیں لکھا ہوا۔ خرم رضا نے کہا کہ اگر عدالت 187 کا اختیار استعمال کرے تو الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے غیرآئینی ہونے پر دلائل دوں گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کی۔ جس پر وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج کی گئی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ نااہلی کی مدت کی تشریح پہلے سپریم کورٹ نے کی پھر پارلیمان نے جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ انفرادی کیسز کو اس کیس میں نہیں دیکھیں گے۔ چیف جسٹس نے تاحیات نااہلی کی حمایت کرنے والے وکیل سے سوال کیا کہ آپ لوگ ڈکٹیٹرز کے سامنے کیوں نہیں بولتے؟۔ واضح کیا تھا کہ انتخابات قریب ہیں ریٹرننگ افسران کا کام متاثر ہوگا، کوئی ریٹرننگ افسر عدالتی فیصلہ مانے گا اور کوئی الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم، ریٹرننگ افسران وکیل نہیں بیوروکریٹ ہیں، کوشش ہے کہ جلد فیصلہ کیا جائے تاکہ ریٹرننگ افسران کنفیوز نہ ہوں، ہم اس کیس کو حل کئے بغیر نہیں چھوڑ سکتے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا جعلی ڈگری پر نااہلی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہوگی؟ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ صادق اور امین کی تعریف کیا ہوگی؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ باقی سارا آئین انگریزی میں ہے امین کیلئے انہیں پتہ نہیں تھا انگریزی کا لفظ کیا ہے؟، جنرل ضیا یا ان کے وزیر قانون کو امین کا مطلب کیا پتہ نہیں تھا؟ یہ چیزیں صرف کنفیوز کرنے کیلئے ڈالی گئیں یا کوئی وجہ بھی تھی؟۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ صادق و امین کا مطلب وہی ہے جو اسلام میں ہے۔ جبکہ جسٹس جمال نے استفسار کیا کہ کون طے کرے گا کس کا کردار اچھا ہے یا نہیں؟۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ یہ تو خدا ہی تعین کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک مرتبہ حلف کی لینگوئیج تبدیل ہوئی تو پورا ملک بند کر دیا گیا، آئین میں بہت سی چیزیں تھوپی گئی ہیں، بدنیتی والی بات نہیں لیکن ہم نے ایک لکیر کھینچنی ہے، ملک سے غداری کرنے پر نااہلی کی سزا پانچ سال اور جھوٹ بولنے کی سزا تاحیات ہے۔ فیصل واوڈا میں موڈ بنا تو اسے چھوڑ دیا، پھر موڈ تبدیل ہوا نااہلی تاحیات کر دی گئی، جنہوں نے پورے ملک کو یرغمال بنائے رکھا انھیں کچھ نہیں کہا گیا۔ وکیل عثمان کریم نے بتایا کہ اگر صادق و امین کا اسلامی مطلب دیکھیں گے تو پھر یہ نان مسلم پر نہیں لگے گا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ غیر مسلم بھی صادق و امین ہو سکتے ہیں، وکیل خرم رضا سمیت جو تاحیات نااہلی کی حمایت کر رہے وہ اپنے نکات بتا دیں، تین وکلا نے تاحیات نااہلی کی حمایت کی تھی، عثمان کریم صاحب اور اصغر سبزواری صاحب کیا آپ خرم رضا کے دلائل اپنا رہے ہیں۔ وکیل اصغر سبزواری نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی "جج میڈ لاء " ہے، جہانگیرترین جیسے کیسز کی انکوائری ہونا چاہئے جہاں ٹرائل کے بغیر تاحیات نااہل کر دیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون آچکا ہے ، نااہلی 5 سال کی ہوچکی تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی۔ جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاست دان عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں، آمروں اور سیاست دانوں کو ایک ساتھ نہیں پرکھا جاسکتا، آمر آئین توڑ کر حکومت میں آتا ہے منتخب ہو کر نہیں آتا، سیاست دانوں کو ایسے برا نہ بولیں وہ عوامی رائے سے منتخب ہوتے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ آئین میں آرٹیکل 62 اور 63 الگ الگ لانے کی ضرورت کیا تھی؟۔ ایک آرٹیکل کہتا ہے کون کون اہل ہے، دوسرا کہتا ہے کون نااہل، دونوں باتوں میں فرق کیا ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی دوسری شہریت لیتا ہے تو وہ 62 میں نہیں 63 میں پھنسے گا۔وکیل عثمان کریم نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے 2013 کے اللہ دینو بھائیو کیس کے فیصلے میں 62 ون ایف کی نااہلی دی، 5 رکنی بینچ نے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی متعارف کرائی،  سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 2020 میں اللہ دینو بھائیو نظر ثانی کیس میں نااہلی کالعدم قرار دے دی، جسٹس بندیال نے 2020 کے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے فیصل واوڈا کیس کا فیصلہ دیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ یعنی آپ کے مطابق جسٹس بندیال نے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر اپنے ہی مؤقف کی نفی کی؟ جس پر عثمان کریم نے کہا کہ سپریم کورٹ کا 62 ون ایف کا سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ اس لئے چلے گا کیونکہ پانچ رکنی بنچ کا ہے۔ عدالتی معاون فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی قیادت کو مٹا دینے والی تشریح سے عدالتوں کوگریزکرنا چاہیے، تاحیات نااہلی، عدالتی قتل اور سزاؤں سے جماعتوں کی قیادت کو مٹایا جاتا رہا، سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ جان بوجھ کر اس کو نہیں چھیڑا گیا، عدالتوں کو بھی اس چیز کو مدنظر رکھناچاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اتفاق رائے میں خلل نہ پڑے اس لئے 62 ون ایف کو نہیں چھیڑا گیا، رضاربانی کا کہنا تھا مختلف نظریات والی جماعتوں کا اتفاق رائے درکار تھا، میں نے اس پر رضا ربانی سے پوچھا تھا، 18ویں ترمیم میں ایک کمپرومائز کے تحت 62 ون ایف کو نہیں چھیڑا گیا، سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ ختم نہ ہونے پر آئینی تشریح میں مسائل ہوں گے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر قانون سازخلا پْر نہیں کرتے تو عدالت بھی کرسکتی ہے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر عدالت بھی تشریح کردے اور قانون سازی بھی ہوجائے کون سا عمل بالا ہوگا، اگر قانون سازوں نے کوئی خلا چھوڑا ہے اسے کیسے پْر کیا جائے گا؟۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا آئین قتل کی سزا کا تعین بھی کرتا ہے؟ اس بنیاد پر الیکشن ایکٹ کا سیکشن 232 ختم نہیں کیا جا سکتا، قانون ساز خلا اس لئے چھوڑتے ہیں کہ بعد میں اس پر قانون بن سکے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم کو ریگولیٹ نہیں کیاجا سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی چیز کو بغیر چھیڑے پارلیمنٹ کے قانون پر عمل کیوں نہیں ہو سکتا، جب پارلیمنٹ نے نااہلی کا نیا قانون بنا دیا تو اس پر عمل کر لیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ سمیع اللہ بلوچ اور فیصل واوڈا کے کیسز میں کوئی تضاد نہیں، سپریم کورٹ نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں غلط فیصلہ کیا، غلطی سب کرتے ہیں۔ عدالتی معاون فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ 8فروری کو الیکشن ہورہے ہیں کوئی کنفیوژن نہ پھیلائی جائے، کوشش ہے کہ تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ جلد کیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن