قاعدہ… قائد… قائداعظم؟…

Jul 05, 2009

بشری رحمن
جب ہم نے اور میرے جیسی نسل نے ہوش سنبھالا تھا۔ تو سکولوں کے اندر پاکستان کو مملکت خدا داد پڑھایا جاتا تھا۔ لکھا جاتا تھا۔ کتابوں‘ کتابچوں اور ہر اہم جگہ پر یہی لکھا نظر آتا تھا۔ بہت چھوٹی عمر میں ہمارے اذہان میں رچ بس گیا کہ یہ مملکت خدا داد ہے۔ اور اللہ نے اپنی خاص مہربانی سے اور بزرگوں کی کاوش سے یہ خطہ ہمیں دیا ہے۔ پتہ نہیں کب خدا داد کہنے کا رواج ختم ہوا۔ دوسری چیز جو ہمیں بچپن میں جابجا نظر آتی تھی۔ وہ ایمان۔ تنظیم اور یقین محکم تھی…
گویا یہ پاکستان کا ایک قسم کا سلوگن تھا۔ اسے تقریروں میں استعمال کیا جاتا۔ جا بجا لکھا ہوا نظر آتا ۔ ہماری نسل کو سمجھایا جاتا کہ اس کا مطلب کیا ہے…
دیکھتے دیکھتے یہ لفظ نظروں سے اوجھل ہوتے گئے۔ اور حرف عسکری کالونیوں میں لکھے نظر آنے لگے۔
ہمارے بچوں نے نہ مملکت خدا داد پڑھا اور نہ کہیں سلوگن لکھا دیکھا …
جلدی جلدی حکومتیں بدلنے لگیں۔ اور ایسے لوگ بھی مسند اقتدار پر نظر آنے لگے۔ جو محمد علی جناح کی پرچھائیں سے بھی واقف نہ تھے۔
محمد علی جناحؒ جو ایشیاء کے ایک عظیم خود دار اور خود نگہدار لیڈر کے طور پر ابھرے۔ انہیں مسلمان ملت نے پاکستان بننے سے 13 سال پہلے قائداعظم کا خطاب دے دیا تھا۔ غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کو ادراک ہو چکا تھا کہ انہیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے والا مرد حق اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ انہیں کسی دبائو یا دولت کے زیر اثر یہ خطاب نہیں ملا تھا۔ ان کیلئے بے اختیار مسلمانان ہند کے منہ سے قائداعظم کے الفاظ نکلے اور پھر ان کے نام کا حصہ بن گئے اور پھر انہیں قائداعظم کے نام سے پکارا جانے لگا اس برصغیر میں جس کی قسمت کئی بار بنی اور بگڑی صرف ایک ہی قائداعظم ہوا اور سندھ اسمبلی میں پہلی بار یہ سوال اٹھایا گیا کہ قائداعظم محمد علی جناح کو یہ خطاب سرکاری طور پر تفویض کیا جائے۔ چنانچہ 13 اگست 1946ء کو جب سندھ اسمبلی میں یہ قرار داد پیش ہوئی تو ہندو ارکان نے اس کی پر زور مخالفت کی اور کہا کہ جب ان کی ملت ان کو قائداعظم پکار رہی ہے تو پھر اسے سرکاری طور پر تفویض کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس وقت سندھ اسمبلی کے مسلمان ارکان نے جن میں لیاقت علی خان بھی شامل تھے۔ ایسی مدلل تقریریں کیں کہ ہندو ارکان منہ دیکھتے رہ گئے اور محمد علی جناح کو سرکاری طور پر یہ خطاب عطا کر دیا گیا جو ان کے نام کا ایک لازمی حصہ بن گیا۔ یہ ایک قاعدہ۔ طریق کار یا آئینی کارروائی ہے۔ اس کی ریکارڈنگ اب بھی سندھ اسمبلی میں موجود ہے۔ اور قائداعظمؒ کی سوانح پر لکھی گئی بہت سی کتابوں میں موجود ہے۔ میں طوالت کی خاطر ان تقاریر کے حوالے نہیں دے رہی۔ محمد علی جناحؒ قائداعظم مانے جا چکے تھے انہیں کسی اسمبلی سے توثیق کروانے کی ہرگز حاجت نہ تھی۔ مگر یہ ان کی جماعت کے لوگوں کا تقاضا اور محبت تھی ہے بھی حقیقت کہ قائداعظم صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ نہ ان کا کوئی ثانی ہوتا ہے۔ نہ ثالث ہوتا ہے۔
یہ رتبہ بلند ملا۔ جس کو مل گیا۔
ان کے رفقائے کار میں سے شہید لیاقت علی کو قائد ملت کا خطاب بھی قوم ہی نے عطا کیا کہ
انہوں نے بھی اپنی ملت کیلئے اپنا لہو دیا۔
گزرتے وقت کے ساتھ قائدین کی ایک کھیپ نکل آئی ہے۔
قائد اسلام
قائد عوام
قائد جمہوریت
قائد مفاہمت
قائد جماعت
قائد علالت وغیرہ وغیرہ… علیٰ ہذا الیقاس:
ہمیں کسی کے قائد کہلوانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں۔ یہ لوگ سیاست کے دریا میں ابھرتے ڈوبتے بلبلے ہیں اور ان کے ارد گرد جو بلبلیں چہچاتی ہیں۔ وہ انہیں خوش کرنے کیلئے نت نئے خطابات سے نوازتی ہیں۔ اگر اب کوئی قائد کہلواتا ہے تو صرف اپنی پارٹی یا اپنے گروپ کے اندر… برصغیر میں صرف ایک شخص ہی قائداعظم کہلوایا ساری دنیا سے… باقی کیا کہیں!؎
گریباں چاک کر لینے سے دیوانہ نہیں ہوتا!
ہمارا آج کا یہ کالم صریحاً جناب بابائے صحافت مجید نظامی کے نام ہے۔ کچھ عرصہ سے ہم سن رہے ہیں بعض دانشوروں اور سیاسی ستمگروں نے قائداعظم کو تقریر اور گفتگو کے درمیان صرف قائد کہنا شروع کر دیا ہے۔ جس ملک میں تھوک کے حساب سے قائد اجاگر ہو رہے ہوں۔ وہاں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی عظمت‘ انفرادیت اور اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایک کلیہ طے کر لیا جائے کہ محمد علی جناح کو ہمیشہ مکمل طور پر قائداعظم بلایا جائے گا۔ صرف قائد نہیں کہا جائے گا اور یہ اعلان جناب مجید نظامی صاحب نظریہ پاکستان کے سٹیج سے کر سکتے ہیں اور اس فکر کو تازہ بھی وہی کر سکتے ہیں اور صرف آخر کے طور پر یہ کہنا تھا کہ اگر پاکستان بیت المال نے قائداعظم کے پڑنواسے اور باقی فیملی کی ذمہ داری اٹھا لی تھی تو یہ احسان نہیں تھا۔ پھر انہیں نیشنل اسمبلی میں بلاکر باقاعدہ اعلان کیوں کیا گیا۔ کیا قائداعظمؒ کے احسانات کا بدلہ اس طرح چکایا جاتا ہے۔
مزیدخبریں