آصف زرداری کا یہ آمرانہ مزاج این آر او کے تحت حکومت حاصل کرنے اور صدارت پر براجمان ہونے کے بعد تشکیل پذیر نہیں ہوا بلکہ ان کا ماضی ظاہر کرتا ہے کہ ”ان کا مزاج لڑکپن سے آمرانہ تھا“ اسکے آثار بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد ظاہر ہونے لگے تو قومی اور بین الاقوامی سطح پر انہیں ”مسٹر ٹین پرسنٹ“ کہا جانے لگا اور پھر انہیں قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ جناب آصف زرداری کی زندگی کا یہ واقعہ بے حد اہم ہے کہ وہ جیل میں تھے اور ضمانت پر رہا ہونے کے آثار بھی نظر نہیں آتے تو پاکستان کے سب سے بڑے نظریاتی اخبار”نوائے وقت“ کے ایڈیٹر انچیف مجید نظامی نے انہیں ”مرد حر“ سے موسوم کیا اور ان کا مقصد یقیناً یہ تھا کہ آصف زرداری صعوبتوں کے اس دور میں اسلامی تاریخ کے اس زندہ جاوید کردار سے مشاہبت پیدا کرینگے اور اپنے کردار کے سابقہ داغ دھو کر اپنی مقاومت سے ایسی تاریخ تشکیل دینگے جو آنےوالے دور کے سیاستدانوں کےلئے مشعل راہ ہو گی۔
حضرت حر بن یزید ریاحی نے میدان کربلا میں اس وقت ایثار و قربانی کی ایک نئی تاریخ مرتب کی جب وہ یزید کے لشکر سے نکل کر حضرت امام حسین سے آملے تھے اور یزید کی فوجوں کےساتھ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے انکی شجاعت کے باب میں لکھا ہے کہ جب حر کے گھوڑے کو تیروں سے چھلنی کر ڈالا۔ حر زمین پر کود پڑے۔ تلوار ہاتھ میں تھی بالکل شیر معلوم ہوتے تھے۔ تلوار ہرطرف متحرک تھی۔ یہ شعر زبان پر تھا۔
”اگر تم نے میرا گھوڑا بیکار کر دیا تو کیا ہوا۔ میں خوفناک شیر سے بھی زیادہ بہادر ہوں“۔
محترم مجید نظامی نے تو آصف زرداری کے باطن سے حر کی صفات و اوصاف کا ”مرد“ برآمد کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ایسا شیر ثابت نہ ہو سکے جس کو روباہی نہیں آتی بلکہ نوڈیرو میں جوش خطابت میں کرگس کے انداز میں جناب مجید نظامی صاحب پر بھی ”جھپٹ“ پڑے اور انہیں نواز شریف کا ”سیاسی گرو“ بھی قرار دےدیا۔ جو نہ صرف خلاف واقعہ تھا بلکہ حقیقت سے بھی بعید تھا چنانچہ نظامی صاحب نے فوراً وضاحت کر دی اور کہا ”میں کسی کا سیاسی گرو نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے کوئی سیاسی گرو مانتا ہے۔ میں نے زرداری صاحب کو صرف لمبی جیل کاٹنے کےلئے ”مردحر“ قرار دیا تھا۔ نظامی صاحب سیاست کے رموز آشنا ہیں لیکن وہ عملی سیاست میں حصہ نہیں لیتے اور انہوں نے کسی بڑے منصب اور عہدے کی تمنا بھی کبھی نہیں کی چنانچہ محمد خان جونیجو اور نوازشریف کے وزارت عظمیٰ کے ادوار میں جب انہیں گورنر اور صدر مملکت کے عہدے کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے اسے شان استغنا سے ٹھکرا دیا اور ”نوائے وقت “ کی ادارت کو فوقیت دی اور پھر اپنے اس اعلیٰ منصب کے تحت ہی کہا کہ میں سیاستدانوں یا حکمرانوں کو خواہ منتخب ہوں یا آمر اپنے اخبار کے کالموں میں ہی مشورہ دیتا ہوں“ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انکے مشوروں میں اسلام کی سربلندی، پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا تحفظ ملک کی اقتصادیات کی بہتری اور عوام الناس کی بہبود اور استحکام پاکستان شامل ہوتا ہے۔ اس پس منظر کو انہوں نے اپنے الفاظ میں یوں واضح کیا کہ میں تو صرف قائدؒ واقبالؒ کے تصورات کےمطابق وطن عزیز میں جدید اسلامی، فلاحی معاشرے کے قیام کا خواہش مند ہوں۔ ملک کی ترقی اور بقا کےلئے ہندو بنیے کے خونیں پنجے سے اپنی شہ رگ کشمیر کی آزادی چاہتا ہوں اور کالا باغ ڈیم کے منصوبے کی تکمیل چاہتا ہوں“۔ مجید نظامی صاحب کی اس وضاحت کے آخری جملوں میں ان کا پیغام بھی موجود ہے اور ان کا روئے سخن آصف زرداری صاحب کی طرف ہے جو اتفاقاتِ زمانہ سے آج صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔
نظامی صاحب نے کہا ”آپ میری خواہش پوری کر دیں تو آپ میرے مرد حر کےساتھ قوم کے مسلمہ لیڈر بھی بن جائینگے“ لیکن جناب آصف علی زرداری پاکستان کی حکومت جس آمرانہ انداز میں چلا رہے ہیں‘ اس کے تمام نقوش نوڈیرو کی تقریر میں مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں۔ کاش! مجید نظامی صاحب کی وضاحت موثر ثابت ہو اور زرداری صاحب اپنی ذات گرامی میں حضرت حر کے اوصاف و صفات پیدا کریں اور تاریخ میں امر ہو جائیں۔