واشنگٹن (آئی این پی + این این آئی) امریکہ میں بعض حلقوں نے سلالہ چیک پوسٹ سانحہ پر پاکستان سے معافی مانگنے پر اوباما انتظامیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور اس اقدام کو امریکہ کے چہرے پر تھپڑ کے مترادف قرار دیا۔ بدھ کو امریکی ٹی وی ”فاکس نیوز“ نے اپنی ویب سائٹ پر سینئر تجزیہ کار مائیکل ایس سمتھ و دیگر کی رائے کو اپنی ویب سائٹ پر جاری کیا جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایک ایسے ملک کی حکومت سے معافی مانگی گئی جو نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروپوں کی حمایت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسی حکومت سے معافی مانگی گئی جس کے انٹیلی جنس عناصر افغانستان میں امریکیوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کے سب سے بڑے حمایتی ہیں۔ مائیکل سمتھ کے مطابق مغرب میں یہ دلیل تو دی جا سکتی ہے کہ اس خیرسگالی کا مظاہرہ تعاون اور مفاہمت کے جذبے کے تحت کیا گیا لیکن پاکستان اور جنوب مغربی ایشیا، مشرقی ایشیا اور جنوبی افریقہ جیسے دیگر ممالک کے مبصرین اس اقدام پر بالکل مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ سلالہ واقعہ سے افغانستان میں امریکہ کی اپنا مشن مکمل کرنے کی اہلیت کو خطرہ لاحق ہوا لیکن حالیہ پیشرفت زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ جرمن نژاد امریکی مصنف، سفارتکار اور کاروباری شخصیت ڈاکٹر ہنری کسنجر نے اپنی کتاب ”ڈپلومیسی“ میں لکھا کہ سٹیٹ مین شپ کا اصل حساس ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اپنے دوستوں اور خاندان کے افراد کے تحفظ کے بارے میں تشویش رکھنے والے ہم میں سے کئی لوگ ہلیری کلنٹن کے معافی مانگنے کے اقدام کو امریکہ کے چہرے پر تھپڑ سمجھتے ہیں۔ آئی این پی کے مطابق امریکی میڈیانے دعویٰ کیا ہے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی پاکستان اور امریکہ کے حکام کے درمیان مختلف سطح پر کئی ہفتوں سے جاری پس پردہ رابطوں کا نتیجہ ہے، یہ رابطے ٹیلی فون کالز، ای میل پیغامات اور ملاقاتوں کی صورت میں ہوتے رہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے نائب تھامس آر نائیدز، واشنگٹن میں پاکستانی سفیر شیری رحمن، وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے اس سلسلے میں بہت کام کیا۔ بدھ کو امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان نیٹو سپلائی کے لئے زمینی راستوں کی بحالی کے حوالے سے معاہدہ دونوں ممالک کے حکام کے درمیان کئی ہفتوں سے جاری پس پردہ رابطوں کے بعد طے پایا، یہ رابطے ٹیلی فون کالز، ای میل پیغامات اور ملاقاتوں کی صورت میں ہوتے رہے۔