مطلوب احمد وڑائچ .....
28 اپریل1977ءکے دن پارلیمنٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہید ذوالفقار علی بھٹو نے جو فکر انگیز کلمات ادا کیے وہ ہماری تاریخ کا ایک لازوال حصہ بن گئے ہیں۔ اس قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وی آئی پی گیلری میں بیٹھے ہوئے غیرملکی سفارت کار بہت بے چین اور مضطرب تھے،انہیں اپنی نشستوں پر قرار نہیں آ رہا تھا کیونکہ 12اپریل کو انٹیلی جنس کی رپورٹ کے مطابق دو اعلیٰ امریکی سفارت کار ٹیلی فون پر آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ بس اب پیپلزپارٹی ہمیشہ کے لیے قصہ پارینہ بن گئی ہے۔ حکومت بس جانے ہی والی ہے اور بھٹو کو سبق سکھا دیا جائے گا۔جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو بتایا کہ قومی اتحاد کے جنرل سیکرٹری رفیق احمد باجوہ نے ہم سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر اسلامی شریعت نافذ کردی جائے تو ہم اپنے دیگر مطالبوں سے دستبردار ہو جاتے ہیں اور جب میں نے ایسا کرنے کی حامی بھری ہے تو پھر اختلافات کیسے؟ پھر ملک میں غیرملکی کرنسی کا سیلاب کیوں آیا ہوا ہے۔ ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ میں چھ روپے ہو گئی ہے اور یہ روپیہ کس مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ یہ روپیہ استحکام پاکستان کو متزلزل کرنے کے لیے، اذانیں دینے، گرفتاریاں پیش کرنے اور جلسے جلوسوں میں شرکت کے لیے بانٹا جا رہا ہے۔ یہ پیسہ بجلی، گیس، میٹر ریڈروں کے ذریعے گھر گھر تقسیم کیا جا رہا ہے۔ یہ پیسہ مزدوروں، کسانوں اور انجمنوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کو حکومت کے خلاف ترغیب دی جا سکے۔ جن لوگوں نے اپوزیشن کی ایجی ٹیشن کو منظم کرنے کے لیے ایسا کیا ہے انہوں نے ہی ماضی میں ایوب خان کو پیش کش کی تھی کہ اگر اس کے خلاف کوئی انقلاب آئے گا تو وہ ایوب خان کو ایسی امداد دیں گے جن سے جوابی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے جب ویت نام کی جنگ میں کردار ادا کیا اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے خود جو میں نے کردار ادا کیا اور چین سے تعلقات بہتر بنانے میں ایک کلیدی رول ادا کیا، اس کو انکل سام کیسے بھول سکتا ہے جن کا انتخابی نشان ہی ہاتھی ہے اور ہاتھی کبھی اپنے دشمن کو معاف نہیں کرتا۔ ہاتھی بڑا کینہ پرور جانور ہے وہ بھولتا نہیں اپنے دشمن کو یہی وجہ ہے کہ ہاتھی کو جب موقع ملا اس نے اپنے دشمن کو سزا دینے کے لیے اپنی حرکات شروع کر دیں ہیں۔1973ءمیں جنگ رمضان کے موقع پر میں نے اسرائیل کی جارحیت کے خلاف عربوں کی جو اخلاقی ،مادی اور فوجی امداد دی تھی اور تیسری دنیا کے سربراہوں کی کانفرنس کی جو تجویز پیش کی تھی اور اسی ہاتھی نے دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کا بھی بُرا منایا تھا اور اس پر غصہ کیا تھا ۔ پھر پاکستان اور فرانس کے درمیان جو ایٹمی ری پراسینگ پلانٹ کاجو معاہدہ ہوا تھا اور ایٹمی توانائی کو ایندھن بنانے کا پاکستان کا جو عزم تھا اس معاہدے کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے۔ چونکہ میں نے اس سلسلہ میں دباﺅ کا مقابلہ کیا ہے بس اسی کو میرا جرم سمجھا گیا ہے۔ بھٹو نے کہا پاکستان کے بارے میں میرا کیا تصور ہے ایک خواب ہے، ایک مشن ہے جسے میں مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے مزدوروں، کسانوں، خواتین کو آزادی دلا کر سرمایہ دارانہ نظام اور اجارہ داریوں کی کمر توڑ دی ہے۔ میں 1958ءسے افغانستان کے معاملات سے منسلک ہوں اور مجھ سے بہتر افغانستان سے تعلقات کوئی اور استوار نہیں کر سکتا۔ جناب بھٹو نے قومی اتحاد کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا میں حلفاً کہتا ہوں کہ میری حکومت نے پولنگ کے دوران یا اس بارے میں کسی مداخلت کی ہدایات نہیں دی تھیں اور صوبوں کے وزراءاعلیٰ سے کہا تھاکہ دھاندلیوں کے متعلق شکایات پر کاروائی کے عمل کو یقینی بنائیں اور ایسی کوئی حرکت نہ کی جائے جس سے حکومت کی بدنامی ہو۔ الیکشن سے دو روز قبل یعنی 5مارچ کو لاہور میں تمام کمشنروں کو بھی اسی طرح کی ہدایات دیں۔ کراچی میں اپوزیشن نے 9سیٹیں جیتیں، صوبہ سرحد میں اپوزیشن نے اکثریت حاصل کی تو پھر پنجاب اور اندرون سندھ میں پیپلزپارٹی کی فطری جیت کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اسلام کی جو خدمت کی ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے اور پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور آئین کی دفعات کے مطابق آئندہ سات سالوں میں تمام قوانین کو شریعت کے ڈھانچے میں ڈھال دیا جائے گا مگر اپوزیشن نے ہمیں کافر کہا ، قابل گردن زنی کہامگر ہم نے شراب پر پابندی لگائی ،جوئے، قمارخانوںپر پابندی لگائی، جمعے کی چھٹی کا اعلان کیا اور سب سے بڑھ کر ہم نے عالم اسلام کے مطالبے پر مرزائیوںکو غیرمسلم اقلیت قرار دیا۔ مجھے مولانا مودودی صاحب نے ایک دفعہ کہا تھا کہ مسئلہ نظام مصطفی کے نفاذکا نہیں مسئلہ پیپلزپارٹی کے اقتدار میں آنے کا ہے۔دراصل ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل پروفیسر غفور احمد صاحب اور نوابزادہ نصراللہ خان جو ان تحریکوں کے روح رواں تھے، اپنی زندگیوں میں پریس کے سامنے اعتراف کر چکے ہیں کہ بھٹو مذاکرات کی رات اپوزیشن کے تقریباً تمام نکات ماننے کے لیے تیار ہو گئے تھے ۔ دھاندلی کو ایشو بنا کر تحریک نظام مصطفی میں تبدیل کر دیا گیا لہٰذا صاف ظاہر ہے کہ اس تحریک کے اصل محرکات کچھ اور تھے۔ پھر جب جمی کارٹر نے بھٹو کو مذاکرات کے دوران دھمکی دی کہ اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں اور تمہاری فیملی کو عبرت کی مثال بنا دیا جائے گا پھر بھٹو کو خط بھیجا گیا جس پر عوامی بھٹو وہ خط لے کر اپنے عوام کے درمیان راجہ بازار آ گیا اور عوام کو بتایا کہ سفید ہاتھی اس کی جان کے درپے ہے ۔ پروفیسر غفور احمد صاحب کہتے ہیں ہمیں نہیں معلوم پھر مذاکرات کے بعد کیا ہوا؟ ہم تو رات کو ہونے والے مذاکرات میں سب طے پا لیا تھا مگر جیسے ہی ہم واپس گھروں کو آئے تھوڑی دیر بعد ہی فوجی بوٹوں کی آوازیں ہمارے صحنوں میں سنائی دینے لگیں۔دراصل اس وقت کی ملٹری قیادت کسی قسم کا تصفیہ نہیں چاہتی تھی لہٰذا 4اور 5 جولائی کی درمیانی شپ جمہوریت پر شب خون مار کر سامراج کے مقاصد کی تکمیل کی گئی اور نوزائیدہ وطن عزیز کو اسٹیبلشمنٹ کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ آج 5جولائی کو گزرے 38سال ہو چکے ہیں اور پاکستان ہزار سال اپنے مقاصد سے دُور چلا گیا۔ 5جولائی کے نقوش اور اثرات نے بعد میں آنے والے سالوں میں اس ملک کے مستقبل پر جو اثرات چھوڑے ہیں اگر اس پر فکرودانش سے آج بھی طے نہ کیا گیا تو پھر5جولائی کے منحوس سائے ہماری ثقافت،ہمارے مستقبل پر ہمیشہ لہراتے رہیں گے۔پاکستان پیپلز پارٹی کو فوجی حاکم اور امریکہ مل کر بھی ختم نہ کر سکے اسے بھٹو کے جانشینوں نے پانچ سالہ اقتدار کے دوران تہس نہس کر کے رکھ دیا۔