گڈ گورننس

ریاست کے بنیادی اجزائے ترکیبی زمین، آباد ی ، حکومت اوراقتدارِ اعلیٰ ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی کم ہو تو وہ ریاست نہیں کہلا سکتی ۔ زمین، اقتدار اعلیٰ اور اپنی خوشیوں کی حفاظت وہاں پر آباد لوگ کرتے ہیں اور اسکی بجا آوری کےلئے انہوں نے جو باڈی تشکیل دی ہوتی ہے اسے حکومت کہتے ہیں۔ گویا ریاست کے توازن اور ترقی میں کلیدی حیثیت حکومت کو حاصل ہے مگر اس کامیابی و ناکامی کا پیمانہ ہمیشہ عوام کے پاس رہتا ہے۔ حکومتی کارگردگی میں بعض اوقات متفرق وجوہات سے تزلزل اور جمود آجاتا ہے۔ تزلزل کا تدراک تو فوری ضرورت ہوتا ہے جبکہ جمود نسبتاً زیادہ وقت میں توڑا جا سکتا ہے ۔ ہاں اگریہی جمود کسی اجتماعی فلاح کے اعلیٰ درجے پر آجائے تو وہ ریاست کے توازن کو بہتر قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ جیسے برطانیہ ناروے وغیرہ میں موجود ہے۔ ہم نے اپنے وطن میں کافی نشیب و فراز دیکھے ہیں مگر زمین کی زرخیزی، عوام کی معصوم سی بے پناہ طاقت اور اقتدارِ اعلیٰ کی خاطر خون کا آخری قطرہ بہا دینے کی گرمی نے حوادث کو پگھلاکر اپنی خاکِ راہ بنا کر رکھ دیا۔ آج ہم ماشاءاللہ نہ صرف ایٹمی طاقت ہیں بلکہ عام انسان کی زندگی کی کوالٹی بھی پہلے سے کہیں بہتر ہے۔ ہم جو آجکل خاصے تنقیدی نظرآتے ہیں۔ وہ مایوسی نہیں اسکے پیچھے دراصل اپنی صلاحیتوں سے آگہی اور ان سے من حیث القوم مزید استفادے کا اضطراب ہے۔ .... طعنہ نشہ نہ دو سب کو کہ کچھ سوختہ جاںشدتِ تشنہ لبی سے بھی بہک جاتے ہیںہمیں ایک ایسی سوسائٹی اور ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جس میں ایک متوازن نظام انفرادی گروہی یا عوام کے اجتماعی استحصال کو روک سکے۔ جس میں قوم کا ہر فرد حکومت کے حصار کو اپنی کاوشوں اور خوشیوں کے گرد یقینی اور مﺅثر جانے اور خود کو کسی طرح بھی نظر اندازی اور عدم مساوات کا شکار محسوس نہ کرے۔ ایسے ماحول میں ہی عوامی طاقت اس قدر Pro-activeہو سکتی ہے کہ نہ تو انہیں قومی ذمہ داریاں بشمول ٹیکس بوجھ لگیں اور نہ دہشت گرد مجرمان وغیرہ اسکے اندر زندہ رہ سکیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ہمیں بہت سارے اقدام کرنے ہیں ۔ جن میں اپنی منتخب کر دہ حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کو سوچوں سے لےکر میدان عمل تک حصہ ڈالنا ہے۔ چند ایک نذر قارئین کرتا ہوں۔ 1۔ہمیں سب سے زیادہ نقصان اقتدار کے روّیوں سے پہنچتا ہے ۔ تکریم انسانیت تو دور کی بات ہے ایک عام شہری کو جو روّیہ ایک جائز کام کیلئے دفاتر کے لاتعداد چکر لگانے کے بعد ایک معمولی سے ملازم سے ملتا ہے وہ اس کےلئے سوسائٹی سے ٹوٹ کر فقط اپنی ذات کو مرکز بنانے اور ہر جائز و ناجائز طریقے سے اپنی زندگی آسان بنانے کی مضبوط ترغیب دینے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ اسطرح لوگوں نے قانون سے امیدیں توڑ کر ایوانوں کی راہداری کے قرب وجوار میںاپنے لئے چھوٹے چھوٹے خدا ڈھونڈ رکھے ہیں۔ سلسلہ اس قدر پھیل گیا ہے کہ کرپشن، اقربا پروری ، ظلم و بے انصافی غرض ہر جرم کا پودایہیںسے پھو ٹتا ہے۔ اس کیفیت کا نام"کمپرومائزڈ سوسائٹی ہے"۔ جس کا میرے نزدیک فارمولا کچھ یوں ہے۔: (کرپشن+طاقتور کی بے حسی+ کمزوری کی بے بسی) xعوامی تسلیم=کمپرومائزڈ سوسائٹیاس کیفیت سے نکلنا بالکل مشکل نہ ہے۔ تھوڑے لفظوں میں عوامی نمائندگی کو بذریعہ لوکل گورنمنٹ و سٹریٹ آرگنائزیشن فعال کیا جائے۔ افسران قابلِ پہنچ ہوںاور باوقار قائدین اسکی کڑی نگرانی کریں۔ فی الوقت اس صوبے میں جہاں پر وزیر اعلیٰ نے پانچ میں سے ساڑھے چار سال پبلک کی خاطر سٹرکوں پر گزار دےے ہوں اور کہیں پر بھی کوئی انگلی نہ اٹھا سکا ہو وہاں پر بھی عوامی حالت بالکل مختلف نہ ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ افسران نے ماتحتوں سے مل کر "جان بچاﺅ"سکیم کے تحت ایسے شیلٹرز بنا رکھے ہیں جن پر لگے شیشے صرف اوپر کی طرف شفاف چمک دیتے رہتے ہیں۔ اب سورج کی شعاعوں اور خاک نشینوں کا رابطہ ناگریز ہو چکا ہے اور ممکن بھی ہے۔ 2۔دوسرا بڑا نقصان ہر سطح پر وقت گزاری کے رویے سے پہنچتا ہے۔ لیڈر اور ماتحت کے درمیان دو واضح فرق ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ لیڈر یا افسر کی سوچ اور احکامات Result Orientedہوتے ہیں جبکہ ماتحت Time Orientedہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ لیڈر یا افسر کےلئے فاروڈ پلاننگ اسکی کاوشوں کا محور ہوتی ہے جبکہ ماتحت کےلئے طے شدہ فیصلوں پر عمل درآمد کرنا ہی اسکی کامیابی ہے۔ ہم آج روٹین کا کام اچھا کرلینے والے کو ہی اچھا لیڈر یا افسر گردانتے ہیں جو کہ ناکافی ہے۔ نئی سوچوں کو Encourageکرنا ہوگا۔ 3۔ہمارے پروسیجرز غرض فارمز اتنے مبہم ہیں کہ ہر قدم پر کسی” رہبر“ کی ضرورت پیش آتی ہے جو اسے مزید پیچیدہ کرکے عوامم کو تنگی، گورننس کو تاخیر پہنچانے کے ساتھ ساتھ لین دین کے مواقع پیدا کر دیتا ہے۔ میں آجکل کرپشن کی جگہ اکثر لین دین کا لفظ استعمال کرتا ہوں کیونکہ کرپشن ایک برائی ہے ، جرم ہے اور چھپ چھپا کر کی جاتی ہے جبکہ ہمارے اس لین دین کوذیلی عدالتوں کے برآمدوں سے لیکر برلب سڑک پر دیکھا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہمیں رولز پر محنت کر کے انہیں وقت کے ساتھ ہم آہنگ کر نے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مجھے آج تک سمجھ نہییں آئی کہ Branded اشیا کو کنٹریکٹر کے ذریعے کیوں خریدا جاتا ہے۔ مثال کے طور پرپولیس کےلئے Hiluxesخریدنی ہیں۔ اس کمپنی کا اس دن کا ریٹ کمپیوٹرپر ہوتا ہے کمپیوٹر پر ہی ان سے ریبیٹ کا فیصلہ ہو سکتا ہے اور وہ اسی ہفتے میسر بھی ہو جاتی ہےں۔ نہایت شفاف اور فوری حاضر۔ دوسری طرف مروّجہ پروسیجر میں تجارتی کمپنیوں سے اظہار دلچسپی مانگا جاتا ہے۔ پھر کنٹریکٹر ٹیکس، پرافٹ وغیرہ شامل کر کے بڑی سی بِڈ کرتا ہے اور پھر کئی ماہ کے بعد وہی چیز مہنگی ملتی ہے۔ صوبائی حکومتوں کو روشن دماغ لوگوں کی کمیٹیاں بناکر اس طرح کے وقت اور پیسہ ضائع کرنے والے پروسیجرز کو ازسرنو بنانا چاہےے۔ 4۔میرٹ کاذکر تو اکثر آتا ہے اور شاید کاغذ پر بھی اسکا مقررّہ معیاردرست ہو۔ مگر میرے نزدیک افسر کی لگن اور کچھ کرکے دکھانے کی صلاحیت ہی اصل میرٹ ہے۔ ایک ا چھی اور تازہ مثال صرف ایک سربراہ کا پاسپورٹ آفس کے بد ترےن حالات کو چند ہفتوں میں ناقابل یقین حد تک درست کرنا ہے۔ ایسے معاملات جو اپنے لوگوںکو خراب کرنے اور ایذا پہنچانے کے علاوہ بین الا اقوامی سطح پر ہماری بدنامی کا باعث بن رہے تھے۔ "عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام"۔ اس سے یہ نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے کہ جس طرح یہ محکمہ نتیجہ خیزی کی صلاحیت رکھتا تھا اسی طرح سب محکمے رکھتے ہیں۔ لیڈران بہتر رہنمائی کریں اور افسر ایمانداری سے نتیجہ پید اکرنے کی طرف کوشاں رہیں تو ہماری گورننس عوام کو بہترین ماحول اور سوسائٹی مہیا کر سکتی ہے۔5۔ہمارے ارباب اقتدار کو پالیسی سازی کے وقت پبلک کی شمولیت سے عملیت پسندی کو یقینی بنانا چاہیے۔ جب اسطرح کی بنائی گئی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آئیگا تو ورکنگ بغیر کسی رکاوٹ کے ہو گی ۔ موضوع تو بہت وسیع اور توجہ طلب ہے مگر کالم اس نوٹ کیساتھ ختم کرتا ہوں کہ اب پبلک سوموٹو کا زمانہ ہے ۔کمزوریا دھوکے پر مبنی گورننس کو مستقبل میں یکسر مسترد کر دیا جائیگا اور کسی کی حکمرانی بھی پبلک کی باعزت شمولیت کے بغیر فعال اور دیر پاثابت نہیں ہو سکے گی۔ 

زیڈ ۔ آئی۔ فرخ

ای پیپر دی نیشن

مولانا صوفی فضل احمد

آپ 1906ء میں نور پور تھل، خوشاب میں میاں ملوک علی کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایک علم دوست اور عارف باللہ بزرگ تھے۔ آپ کی ...