پشاور(بی بی سی+این این آئی)پشاور ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد سے متعلق تفصیلی ریکارڈ پیش نہ کرنے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر اگلی پیشی پر لاپتہ ہونے والے افراد کے بارے میں مطلوبہ معلومات عدالت میں پیش نہ کی گی تو خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کر کے ان کی تقریریاں روک دی جائیں گی۔ یہ احکامات چیف جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس قیصر رشید پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ایک سو تئیس ایک جیسی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جاری کیا۔ چیف جسٹس دوست محمد خان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے کیسسز کی سماعت کئی سالوں سے جاری ہے اور وہ ہر پیشی پر ایک نیا حکم نامہ جاری کرتے ہیں لیکن نہ خفیہ اداروں کی طرف سے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کیا جاتا اور نہ لاپتہ افراد سے متعلق مطلوبہ معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ نے وزارتِ داخلہ کو حکم دیا کہ وہ خفیہ اداروں کے سیکٹر اور لوکل کمانڈروں کو ہدایت جاری کرے کہ لاپتہ ہونے والے افراد میں جو بے گناہ ہیں ان کو فوری طور پر رہا کیا جائے تاہم جن کے خلاف الزامات ہیں ان کو حراستی سینٹرز منتقل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اگلی پیشی سے قبل ان احکامات پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے خلاف خود بخود فوجداری مقدمات قائم ہو جائیں گے اور ان کی تقرریاں روک کر ان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں گے۔عدالت نے تمام کیسوں کی سماعت 21 اگست تک ملتوی کر دی۔این این آئی کے مطابق جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ خفیہ ایجنسیاں خود کو عدلیہ سے بالاتر سمجھتی ہیں، اگر کوئی لاپتہ شخص حراستی مراکز سے برآمد ہوا تو خفیہ ایجنسیوں کے سیکٹر کمانڈروں کیخلاف کارروائی ہوگی۔پشاور ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کی کیس میں دفاع اور داخلہ کے سیکرٹریوں کو عدالتی احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کا حکم دیا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ