آج کے دِن 37 سال پہلے 5 جولائی 1977ء کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیأالحق نے اپنے مُحسن منتخب وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کر کے خود اقتدار پر قبضہ کر لِیا تھا۔ جنابِ بھٹو کئی سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کر کے جنرل ضیأالحق کو آگے لائے تھے۔ وزیرِاعظم نواز شریف نے بھی ایسا ہی کِیا تھا جب انہوں نے جنرل پرویز مُشرّف کو پاک فوج کا سپہ سالار بنایا تھا۔ جنرل ضیأالحق نے جنابِ بھٹو کو پھانسی دلِوائی لیکن جنرل پرویز مُشرّف نے جناب نواز شریف کو پہلے سزا اور پھر معافی دینے کے بعد جلا وطن کر دِیا تھا۔ دونوں جرنیلوں کے اِس کردار کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے اپنے مُحسنوں سے وہی سلوک کِیا جو رومن ڈکٹیٹر "Julius Caesar" کے ساتھ اُس کے دوست جرنل بروٹس (Marcus Junius Brutus) نے کِیا تھا۔
بعض سیانوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ’’جناب ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف میں مردم شناسی نہیں تھی۔‘‘ دراصل یہ مردم شناسی کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ قسِمت کا فیصلہ تھا اور یہ بھی قسِمت کا فیصلہ تھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو اپنے والد کی ’’شہادت‘‘ کیش کرا کے دو بار وزیرِاعظم منتخب اور پھِر قتل ہوئیں اور اُن کے بعد یہ بھی قِسمت کا فیصلہ تھا کہ نان گریجویٹ ہونے کے باوجود بھٹو صاحب کے رُوحانی فرزند جناب آصف زرداری کے دائیں ہاتھ پر صدارت کی لکِیر کھینچ دی گئی۔ جنابِ بھٹو کو صدرِ پاکستان میجر جنرل (ر) سکندر مرزا مارشل لاء نافذ کر کے اقتدار میں لائے اور اُن کے بعد جنرل محمد ایوب خان نے بھی انہیں اپنی مارشلائی کابینہ میں شامل کر لِیا۔ میاں نواز شریف کو سیاسی طور پر جنرل ضیأالحق نے پروان چڑھایا تھا۔ اکثر سیاستدان جنابِ بھٹو اور میاں نواز شریف کو ’’مارشل لاء کی پیداوار‘‘ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آنے سے پہلے کشمیر کاز کے چیمپئن اور غریبوںکے حق میں ’’انقلاب‘‘ لانے کے داعی تھے لیکن ثابت ہُوا کہ جنابِ بھٹو کا مقصد غریبوں کے حق میں انقلاب لانا نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی پیپلز پارٹی سے بائیں بازو کے انقلابی لیڈروں کو چُن چُن کر نکال باہر کِیا۔ ایسے حالات پیدا کئے کہ وہ خود پارٹی چھوڑ کر چلے گئے۔ بھٹو صاحب نے جان بوجھ کر اپنی پارٹی میں انتخابات نہیں کرائے۔ موصوف جب تک زندہ رہے ،خود اوپر سے نیچے تک تمام عہدیداروں کو نامزد کرتے رہے۔ اُن کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور پھرمحترمہ بے نظیر بھٹو یہ نامزدگیاں کرتی رہیں اور اب جنابِ زرداری خود یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ جناب بھٹو نے پارٹی میں بائیں بازو کے لیڈروں مختار رانا، معراج محمد خان، حنیف رامے اور کئی دوسروں کو جیل بھجوایا۔ پھر انہوں نے پارٹی کے دروازے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے لئے کھول دیئے اور انہوں نے لاکھوں ساتھیوں سمیت پارٹی میں داخل ہو کر پارٹی کو (صدر ایوب خان کی) کنونشن مسلم لیگ کے رنگ میں رنگ دِیا۔
1977ء کے عام انتخابات میں وزیراعظم بھٹو اگر دھاندلی نہ بھی کراتے تو وہ سادہ اکثریت سے بھی جیت جاتے لیکن جب انہوں نے دھاندلی کے ذریعے ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ حاصل کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہے تو حزبِ اختلاف کی 9 سیاسی، مذہبی جماعتوں نے ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ بنا کر دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی۔ اِس تحریک کا نام نہ جانے ’’تحریک ِ نظامِ مصطفی‘‘ کیسے پڑ گیا؟ حالانکہ اتحاد میں سیکولر جماعتیں بھی تھیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے فوج سے مداخلت کی اپیل کی۔ جنرل ضیأالحق نے اقتدار سنبھال لِیا اور 90 دِن میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ بھی کر لیا لیکن وہ وعدہ وفا نہ ہُوا۔ پھر انہوں نے خود ’’نظامِ مصطفی‘‘ نافذ کرنے کا اعلان کر دِیا۔ جنرل ضیأالحق نے دسمبر 1984ء میں ایک سوال پر پورے ملک میں ریفرنڈم کرایا کہ ’’کیا آپ پاکستان میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں اور اگر اِس سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے تو اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ آپ نے جنرل ضیأالحق کو پانچ سال کے لئے صدرِ پاکستان منتخب کر لیا ہے۔‘‘ جنرل ضیأالحق صدارتی ریفرنڈم جیت گئے اِس لئے کہ وہ اِس ریفرنڈم میں واحد امیدوار تھے۔
جنرل ضیأالحق کے ساڑھے گیارہ سالہ دَور میں سوِیلین مارشلائی اور اسلامی تعزیری نظام کے تحت حکومت چلتی رہی۔ ’’حقوق اُلعباد کا فلاحی اسلامی نظام نافذ کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ جنرل ضیأالحق نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سندھڑی کے جناب محمد خان جونیجو کو وزیرِاعظم نامزد کر کے اُن کی صدارت میں مسلم لیگ بنوائی۔ پھر جونیجو صاحب کی حکومت کو بھی ختم کر دِیا۔ اُس وقت جنرل صاحب نے کہا کہ ’’میرا جی چاہتا ہے کہ مَیں بار بار اسمبلیاں توڑوں اور بار بار انتخابات کرائوں۔‘‘ لیکن موصوف کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی۔ 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیأالحق ہوائی حادثے میں جاں بحق ہُوئے۔ جنرل فیض علی چشتی کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ’’جنرل ضیأالحق کو پاک فوج نے قتل کروایا ہے۔‘‘ جنرل ضیأالحق کے بڑے بیٹے اپنے والدِ محترم کے قتل کے مقدے میں مُدعی نہیں بنے۔ جِس طرح جنابِ زرداری اور بلاول بھٹو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں مُدعی نہیں بنے۔ جنرل ضیأالحق میاں نواز شریف کو اپنے بیٹوں سے بڑھ کر سمجھتے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’خُدا کرے کہ میری زندگی بھی نواز شریف کو لگ جائے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اُن کی یہ دُعا قبو ل کر لی۔ جنرل ضیأالحق اپنے بیٹوں کو سیاست میں نہیں لانا چاہتے تھے شاید اِسی لئے جناب اعجازالحق اپنے والدِ محترم کی ’’شہادت‘‘ کیش نہیں کرا سکے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی وارث جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو ہیں لیکن میاں نواز شریف خود کو جنرل ضیأالحق کا جانشین تسلیم نہیں کرتے۔ وہ ’’آمریت کا ساتھ دینے پر‘‘ قوم سے معافی مانگ چکے ہیں۔ میاں صاحب جنرل ضیأالحق کی سالگرہ، برسی نہیں مناتے اِس لئے کہ جنرل ضیأالحق کی قبر اُن کا ووٹ بنک نہیں ہے۔ ووٹ بنک تو جناب اعجازالحق کا بھی نہیں ہے۔ کسی دَور میں میاں نواز شریف بھٹو خاندان کے لیڈروں کے متحارب لیڈر سمجھے جاتے تھے۔ اب حالات بدل چُکے ہیں۔ جناب آصف زرداری بھٹو صاحب کی طرح ’’داعیٔ انقلاب‘‘ نہیں ہیں اور میاں نواز شریف نے بھی کبھی ’’انقلاب‘‘ کا نعرہ نہیں لگایا۔ دونوں قائدِین غیر نظریاتی اور روایتی سیاست کرتے ہیں۔ آج 5 جولائی کو پاکستان پیپلز پارٹی ’’یومِ سیاہ‘‘ کے طور پر منا رہی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) اور بھٹو خاندان مخالف دوسری سیاسی اور مذہبی جماعتیں پہلے کی طرح اِسے ’’یومِ نجات‘‘ کے طور پر نہیں منا رہِیں۔ وزیرِاعظم نواز شریف اور جناب آصف زرداری میں ذاتی اور سیاسی قُربتیں بہت زیادہ بڑھ رہی ہیں۔ کبھی کبھی اِس طرح کے بیانات بھی آتے رہے ہیں کہ ’’شریف خاندان اور بھٹو (زرداری) خاندان میں دوستی آئندہ کئی نسلوں تک چلے گی۔‘‘ ایسی صورت میں یہ بھی ممکن ہے کہ جب بلاول بھٹو زرداری اور حمزہ شہباز شریف پاکستان پِیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت سنبھالیں تو مستقبل کے اِن دونوں لیڈروں میں دوستی اور بھائی چارہ اِس قدر بڑھ جائے کہ دونوں پارٹیاں ’’اِک مِک‘‘ ہو جائیں اور اُس پارٹی کا نام ہو ’’پاکستان پِیپلز مُسلم لِیگ (ن)؟‘‘