عید کے لغوی معنی ہیں’’خوشی کا تہوار‘‘ نہایت خوشی۔ جو بار بار آئے مسلمانوں کے جشن کا روز، خواجہ اجمیر نے جب صبح سویرے گنگا جل کرتے ہوئے ہندوئوں کی پرارتھنا دیکھی تو اپنے مرید خاص امیر خسرو کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا ہر قوم راست راہے دین و قبلہ گاہے۔خسرو کی رگ شعریت پھڑکی اور عرض کیا۔ من قبلہ راست کردم بر سمت کج کلاہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تہوار ہر مذہب کے پرچارک اپنے اپنے رنگ میں مناتے ہیں گو انکے نام مختلف ہیں۔ ہندو مذہب میں ہولی اور دیوالی کے تہوار خوشیاں منانے کیلئے مختص ہیں۔ ہولی کا انعقاد موسم بہار میں ہوتا ہے اور دیوالی کے موقع پر تیز روشنیوں میں لکشمی کی پوجا کی جاتی ہے۔ ہندو میتھالوجی خاصی گنجلک ہے۔ عام آدمی کیلئے اسے سمجھنا مشکل ہے۔ بالفرض کوئی تگ و دو کر کے داخل ہو بھی جائے تو ان دیو مالائی گھپائوں میں سے واپسی کا راستہ نہیں ملتا۔
-2 عیسائی کرسمس کا تہوار مناتے ہیں۔ یسوع مسیح کا یوم ولادت مریم کی عصمت کی گواہی قرآن شریف نے دی ہے۔ الزام لگانے والوں کی زبان اس طفلک شیر خوار نے بند کر دی تھی۔ میں خدا کا نبی ہوں اور کتاب لایا ہوں۔ سمجھ نہیں آتی کہ انکی ولدیت پر کیوں بحث کی جاتی ہے۔ جو رب کائنات کن فیکون کے ذریعے تمام کائنات تخلیق کر سکتا ہے۔ آدم کو بن باپ کے پیدا کر سکتا ہے۔ حوا کو انکی پسلی سے نکال سکتا ہے۔ وہ مریم کو بن باپ کے بیٹا بھی عطا کر سکتا ہے۔ !
-3 مسلمان دو عیدیں مناتے ہیں۔ عید الفطر اور عید الاضحیٰ!
اسکے علاوہ بھی خوشی کے تہوار آتے ہیں جیسے عید میلاد النبی لیکن فی الحال ان دو کا ذکر مقصود ہے۔ پہلی آدمی کو کڑے امتحان سے گزارتی ہے تودوسری اس امتحان کی یاد دلاتی ہے جس سے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ گذرے تھے۔ پورے ایک ماہ تک سارا دن بغیر کچھ کھائے پیئے گزارنا خاصا مشکل ہوتا ہے پھر روزہ محض فاقہ کشی کا نام نہیں ہے۔ اس کیلئے تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن بھی ضروری ہیں۔ فاسد خیالات کو اپنے نزدیک نہ آنے دینا۔ خشوع و خضوع کیساتھ رب کائنات کے حضور سربسجود ہونا۔ روزے کی حالت میں آدمی کو احساس ہوتا ہے کہ بیس کروڑ لوگوں کی اکثریت جو خطِ غربت سے نیچے ہے، کس طرح زندگی گزارتی ہے۔ وہ لوگ جو کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جو عملاً سارا سال نیم روزے کی حالت میں ہوتے ہیں۔ اس سے جذبہ ترحم ابھرتا ہے۔ زکوٰۃ دینے اور دکھی انسانیت کی مدد کرنے کو جی چاہتا ہے۔
-4 دوسری اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں DEVOTION, DEDICATION AND SUBMISSION THE WILL OF ALLAH نے مجسم شکل اختیار کر لی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ کو خواب میں حکم ملتا ہے۔ بیٹے اسماعیل کی قربانی دو۔ صبح جب بیٹے کو بتاتے ہیں تو بغیر کسی حیل و حجت کے جواب ملتا ہے میں حاضر ہوں۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
حاجرہ کو بتائے بغیر چُھری اور رسی لے کر باپ بیٹا منیٰ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ راستے میں ابلیس وسوسے ڈالنے اور گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نہایت جذباتی انداز میں اسماعیلؑ کو کہتا ہے۔ تمہارا باپ سٹھیا گیا ہے بڑھاپے کے سائے اسکی شخصیت پر پڑنے لگے ہیں۔ تم نوجوان ہو۔ توانا ہو۔ تمہیں زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے۔ ذرا سوچو! جب تمہاری سربریدہ لاش گھر پہنچے گی تو حاجرہ پر کیا گزرے گی۔ دکھیاری ماں سینے پرہاتھ مار کر چل بسے گی۔ ایک گھر سے بیک وقت دو جنازے اٹھیں گے۔ لوگ کیا کہیں گے۔ خاک نشینوں کا خون تھا رزق خاک ہو گیا۔ حضرت اسماعیلؑ نے نفرت سے اسکی طرف دیکھا لیکن جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔
وہ بدبخت کہاں ہار ماننے والا تھا۔ عالم تو تھا ہی، علمی بحث پر اتر آیا کہنے لگا۔ انبیا کو دو قسم کے خواب آتے ہیں۔ عینی اور تمثیلی تمہارے باپ کو تمثیلی خواب آیا ہے جسے یہ عینی سمجھ بیٹھا ہے حضرت اسماعیلؑ غصے سے بولے۔ دور ہو جا ملعون تمہاری بھی کوئی زندگی ہے حیات بے مصرف راندہ درگاہ! معتوب پروردگار ۔
حضرت ابراہیمؑ نے اسماعیلؑ کو رسی سے باندھا، اپنی آنکھوں پر پٹی باندھی اور چُھری چلا دی۔ جب پٹی کھولی تو ایک دنبہ ذبیح تھا۔ حضرت ایک طرف کھڑے مسکرا رہے تھے۔ چار ہزار برس گزر گئے ہیں لیکن واقعہ ذہنوں سے محو نہیں ہوا۔ اس قربانی کوذبیحِ عظیم میں بدل دیا گیا۔ مسلمان ہر سال رسم براہیمی ادا کرتے ہیں۔
عیدین دیگر مذاہب کے تہواروں سے اس اعتبار سے مختلف ہیں کہ نماز عید کے بعد محمود و ایاز کی تفریق ختم ہو جاتی ہے۔ غریب امیر سب آپس میں گلے ملتے ہیں۔ ہر کوئی کسی بھی عیدگاہ میں جا کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ گلے ملنا تو دُور کی بات ہے، شودر و دیگران برہمن سے ہاتھ ملانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ مندر میں نہیں جا سکتے، کسی زمانے میں بھگت گیتا کے اشلوک سننے پر بھی پابندی تھی۔ گو گاندھی جی نے اس ہریجن کو قریب لانے کی کوشش کی لیکن ہندو معاشرہ ہنوز طبقات میں بٹا ہوا ہے۔ عیسائیت اور یہودیت میں بیڈ پریسٹ کو ملنے کا رواج ہی نہیں ہے۔
البتہ ایک قضیہ ہر سال کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہ ہے دید ہلال عید۔ گو حکومت نے رویت ہلال کمیٹی بنائی ہوئی ہے لیکن اسکی کوئی سنتا نہیں ہے۔ سب سے بڑے معترض تو ہمارے مولانا پوپلزئی ہیں۔ حضرت اسم بامسمیٰ ہیں۔ نام تو پوپلزئی ہے ہی، شکل صورت سے بھی بالکل پوپل زئی لگتے ہیں۔ سنجیدہ بھی ہوں تو یوں گمان ہوتا ہے کہ مسکرا رہے ہیں۔ مولانا کی خوبی یہ بھی ہے کہ چاند کو وطن عزیز میں تلاش نہیں کرتے بلکہ عرب کی فضائے بسیط میں ڈھونڈنے کی سعی فرماتے ہیں۔ جب وہاں اعلان ہوتا ہے کہ چاند نظر آ گیا ہے تو مولانا صاحب بھی آمنا و صدقاً کہہ دیتے ہیں۔ حکومت نے بڑی کوشش کی ہے کہ انکی سوچ کو قومی چولا پہنایا جائے لیکن …؎
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جاتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
اس سلسلے میں حکومت کا اپنا ریکارڈ بھی کوئی قابل رشک نہیں ہے۔ کسی نے ایوب خان کے کان میں بھنک ڈال دی کہ عید جمعہ کے روز نہیں ہونی چاہیے۔ دو خطبے سربراہ مملکت کیلئے بھاری ہوتے ہیں۔ چنانچہ قصر صدارت سے نادر شاہی فرمان جاری ہوا اور جمعہ کی عید کو کھینچ کھانچ کر جمعرات میں لا کھڑا کیا۔ بھٹو مرحوم کے دور میں بھی جمعہ آ گیا۔ مولانا کوثر نیازی نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی کہ عید کو آگے بڑھا دیا جائے نہیں تو کوئی آفت ناگہانی آ سکتی ہے۔ بھٹو مرحوم نے مشوّش لہجے میں کہا۔ مولانا آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ چودھری فضل الٰہی بہت بوڑھا ہو گیا ہے۔ زیرک حکمران سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کا فرق جانتا تھا۔
سول سروس میں عید منانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ سارا شہر ’’در دولت‘‘ پر سلامی دینے آتا ہے۔ میں مستونگ میں A.C تھا۔ تحصیلدار افضل نے مجھے بتایا کہ اس نے پانچ من مٹھائی کا آرڈر دے دیا ہے۔ حیرانی کے ساتھ ساتھ مجھے جیب پر بھی دباؤ محسوس ہوا۔ استفسار پر بولا۔ آپ کمانڈنٹ بلوچ لیویز بھی ہیں۔ سینکڑوں سپاہی عید مبارک کہنے آئینگے۔ بلوچ مٹھائی چکھتا نہیں، کھاتا ہے۔ ڈی سی مکران رفیق احمد خان کو عید سے ایک دن قبل اطلاع ملی کہ جہلم میں انکی ساس فوت ہو گئی ہے۔ انہوں نے حکم نامہ جاری کیا کہ عید کے روز کوئی شخص نہ تو عید مبارک کہنے آئے اور نہ تعزیت کرنے۔ اس پر مکرانیوں نے بہت برا منایا۔ M.S ڈاکٹر ریاض بولا۔ بڑا زنخا ڈی سی ہے۔ ساس بھی کوئی رشتہ ہوتا ہے۔ D.C خاران مجیب الرحمن مخبوط الحواس شخص تھا۔ عید کی نماز پڑھتے ہوئے وہ سجدے میں گیا تو پھر نہ اٹھا۔ نمازی گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ کافی دیر وہ عالم استغراق میں رہا۔ جب ہوش آیا تو جوتے عیدگاہ میں چھوڑ کر بھاگ پڑا۔ اس شخص کا تعلق سول سروس سے تھا۔ نواب کالا باغ نے بطور سزا آواران بھیجا تھا۔ اسکے علاوہ برلاس صاحب سابق کمشنر بہاول پور کا قصہ بڑا دلچسپ ہے۔ زود رنج انسان ہیں اس لئے ذکر نہ کرنا ہی قرین مصلحت ہے۔