عید پر سیاسی چٹکیاں

جس ملک میں سٹیل مل ریفرنس کیس میں شرمیلا فاروقی اور اسکے خاندان کے افراد نیب سے پلی بارگیننگ کرکے 21سال کی نااہلی اور سزا قبول کر لیں اور پھر بھی پچھلے چھ سال سے محترمہ صوبائی اسمبلی کی رکن ،صوبائی وزیر اور مشیر رہ رہی ہوں اس ملک میں قانون کو شرمیلی شرم آنی چاہیے۔ایک شرمیلا پہ ہی کیا موقوف پچھلی ایک دہائی سے پاکستان کا پورا پارلیمانی نظام ہی بوگس اور جعلی ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ جس طرح میڈان چائنہ چیزیں ایک نمبر ، دو نمبر اور تین نمبر ہوتی ہیں اسی طرح ہمارا پارلیمانی نظام بھی دو نمبرہے۔ کسی بھی معاشرے کیلئے یہ مقامِ عبرت ہے کہ ایک ہی وقت میں اس ملک کی تین بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کرپشن اور غداری کے الزامات کے تحت خودساختہ جلاوطنی گزارنے پر مجبور ہوں ۔ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد سے لےکر آصف علی زرداری کی صدارت کی مدت پوری ہونے تک ،بمبینو سینما کی ٹکٹوں سے لیکر ساٹھ ارب ڈالرز کے اثاثے بنانے والے سابق صدر ِ مملکت کو پاکستان واپس آنے میں دشواری ہے۔ اس طرح موجودہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف جن کے پاس تیسری دفعہ دو تہائی اکثریت والی حکومت ہے اس بار بھی اپنی اکثریت کے بوجھ تلے دب چکے ہیں۔ پانامہ لیکس کی بین الاقوامی رسوائی کے بعد مختلف حیلوں، بہانوں اور متعدد دفعہ قوم سے خطاب اور پارلیمنٹ کے مقدس فلور کو اپنے ”عظیم“ مقاصد کیلئے استعمال کر چکے ہیں، جب کچھ نہ بنا تو بیماری¿ دل کو کرملک سے نو دوگیارہ ہوگئے۔اور اب شنید یہ ہے کہ سپہ سالار پاکستان سے ڈیل کرنے کے چکر میں ہیں اور پاکستان صرف اس شرط پر واپس آنا چاہتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے 14شہدا کے قتل کی ایف آئی آر سے ان کا نام نکلوا دیا جائے جبکہ سپہ سالارِ پاکستان اس مسئلہ پر کوئی وعدہ کرنے کی پوزیشن میں اس لیے نہیں کہ یہ ایف آئی آر ان کی اپنی ثالثی میں درج ہوئی بلکہ متعدد دفعہ اس میں ترامیم بھی سپہِ سالاراعلیٰ کے ایما پر کی گئی۔قارئین کچھ عرصہ قبل پہلی دفعہ راقم نے ہی ”نوائے وقت“ کے صفحات پر اپنے کالم میں محمود اچکزئی کے خاندان کا پورا شجرہ شائع کیا تھا جس میں بتایا گیا تھا اچکزئی سمیت خاندان کے 19افراد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران، وزیر ،مشیر اور کلیدی عہدوں پر براجمان ہیں۔ پاکستان کی معیشت پر بوجھ یہ خانوادہ نمک تو پاکستان کا کھاتا ہے مگر پاﺅں میں پاکستان کے دشمنوں کے بیٹھتاہے۔ اب وقت آ گیا ہے ایسے قومی ناسوروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ جب ایم کیو ایم کے قائد کوئی اس سے ملتی جلتی بات کریں تو ان کا جیتے جی ناطقہ بند کر دیا جاتا ہے ان کی تقریر اور بیان بھی شائع کرنا ممنوع قرار دیا جاتا ہے مگر پاکستان کی سالمیت پر اچکزئی جیسے غدار طالع آزمائی کرتے ہیں مگر اس کا ایکشن نہیں ہوگا کہ موصوف حکمران پارٹی کے اتحادی ہیں۔محمود اچکزئی قلعہ عبداللہ بلوچستان سے چند ہزار ووٹوںسے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ خود پختون نژاد بلوچی ہو کر وہ پاکستان کے پختونوں کی آواز بن سکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے ۔ پختون عوام کو اب زیادہ عرصہ بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا ،یہی وجہ ہے گذشتہ الیکشن میں خیبرپختونخواہ کی غیور عوام نے مولانا فضل الرحمن کی منافقت زدہ سیاست کو وائٹ واش کر دیا اور اسی طرح پاکستان کے ساتھ منافقت رکھنے میں ماہر اے این پی کو ملکی سیاست سے مکمل چھٹی ہو گئی۔لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ یہ ایسا چسکا ہے کہ جسکو پڑ جائے اسکا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اگر اچکزئی صاحب کی بات مان لی جائے تو کل کو مشرقی پنجاب یہی ڈیمانڈ کریگا۔ ایران کا صوبہ بلوچستان بھی پاکستانی صوبہ بلوچستان پر حق جتائے گا۔ سندھی بھارت میں بھی ہیں وہ بھی سندھ پر حق جتائیں گے۔ اسی طرح شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے عوام بھی ایک دوسرے کے ملک کی ڈیمانڈ کریں گے اور دنیا بھر کے بے شمار ملک جغرافیائی بنیادوں پر منقسم ہوئے مگر اس بچگانہ خواہشوں کا کیا جائے۔
اگر افغانوں کو رکھنا اتنا ہی ضروری ہے تو افغانستان کے پختون خود کو پاکستان میں ضم کر لیں کیونکہ پورے افغانستان پر اقتدار تو انکے بس کی بات نہیں ہے۔ افغان خود تین بڑے گروپس میں تقسیم ہیں۔ پختون ، ازبک اور پریشین۔ افغانستان میں اس وقت تک امن نہیں ہو سکتا جب تک ازبکستان ،ایران اور پاکستان افغان قیادت کے ساتھ ایک میز پر نہ بیٹھیں۔ اس وقت پاکستان میں غیرسرکاری اعدادوشمار کےمطابق 50لاکھ افغان رفیوجی موجود ہیں جو بوقت ہجرت اپنے ٹرک ٹرالے اور بھیڑ بکریاں بھی ساتھ لے آئے تھے جبکہ یہ مہاجرین اپنے انصار بھائیوں کیلئے بطور ہدیہ کلاشنکوف ، ہیروئن اور دیگر منشیات سمیت اخلاقی جرائم کے نت نئے طریقے اور تجربات بھی ساتھ لائے تھے۔آج پاکستان کی سالمیت بھائی چارے کا بھرم رکھتے ہوئے افغانوں کا ساتھ دینے کی وجہ سے داﺅ پر لگی ہے ۔ انفراسٹکچر تباہ ہو چکا ہے، ایک لاکھ سے زائد سویلین اور دس ہزار عسکری جوان شہادت پا چکے ہیں۔ہم افغانستان کیلئے اور کیا کریں؟ جبکہ ہمارے مدمقابل ایران نے جب مہاجرین آنا شروع ہوئے تو ان کو باڑ لگا کر ایک میلوں لمبے کیمپ میں محصور کر دیا۔ جہاں وہ صرف خصوصی اجازت نامے کے بعد باہر نکل سکتے ہیں۔ یہی حال بنگلہ دیش نے علیحدگی کے بعد اپنے ہاں صدیوں سے آباد بہاری شہریوں کیساتھ کیا اور آج بھی لاکھوں بہاری بنگلہ دیشی کیمپوں میں کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں جبکہ پاکستان میں افغان منشیات کے سوداگروں نے ہماری معیشت کو غیر مستحکم کر دیا ہے اور ہرشہر میں کوٹھیاں، بنگلے ،پلاٹ اور پلازے تعمیر کر رکھے ہیں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ہماری لوکل ٹرانسپورٹ، سروس کارگو کمپنیاں تباہ ہو چکی ہیں۔ایک سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں دس لاکھ افغانی نجی اور سرکاری عہدوں پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں جبکہ ان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان میں مقامی لوگوں کیلئے جاب تلاش کرنا مشکل ہوا اور لاکھوں پاکستانی ہنرمند وسیلہ¿ روزگار کیلئے عرب امارات، سعودیہ، یورپ ،کینیڈ ااور امریکہ نقل مکانی پرمجبور ہوئے ۔مجھ سمیت بائیس کروڑ پاکستانیوں کی حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ موصوف محمود اچکزئی اور انکے خاندان کو افغان مہاجرین کے ساتھ افغانستان بھیج دیا جائے جہاں وہ ایک گریٹر افغانستان کیلئے ازبکوں اور ایرانیوں سے دست و پنجہ آزمائیں۔
میری قارئین ”نوائے وقت “ اور اہل پاکستان کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے گھٹی میٹھی عید مبارک ۔

ای پیپر دی نیشن