حکمرانی کا نیا دور شروع ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جیسے جیسے بادشاہت ختم ہوتی گئی نیا طرز حکمرانی وجود میں آگیا اب ریاست اور حکومت دو علیحدہ علیحدہ ادارے بن گئے۔ ریاست مستقل قائم رہنے والی مملکت ہے جیسے پاکستان جو ایک نظریاتی مملکت بھی ہے جس میں حاکمیت اعلیٰ رب العزت کی ہے جس کا ایک آئین ہے جو دستور ساز اسمبلی کی حدود کا تعین کرتا ہے۔ چیک اینڈ بیلنس کے لئے ادارے موجود ہیں بیوروکریسی ، جیوڈیشری اور فوج کے ذریعے ریاست کی حفاظت، عدل و انصاف اور حکومت کی راہ نمائی کرتے ہیں۔ ریاست کے ان اداروں کے سربراہان کو ریاست کی وفاداری سے حلف لینا ہوتا ہے ان کے لئے قواعد و ضوابط بنا دیئے گے ہیں جن پر عمل کرنا ان کا فرض منصبی ہے۔ حکومت جو ہر پانچ سال کے بعد منتخب ہو کر آتی ہے اپنی حدود کے اندر رہ کر عوام کی خدمت کرنے کی پابند ہے۔ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو اس کا منشور عوام کی خدمت اور ریاست کو خوشحال بنانا ہوتا ہے۔ تاجِ برطانیہ سے لے کر تمام دنیا کے ممالک میں ریاست اور حکومت کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ پاکستان ستر سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک ریاست اور حکومت کے درمیان روابط کو درست نہیں کرسکا۔ پاکستان میں تو جو بھی حکومت میں آیا اس نے اپنے آپ کو بلاشرکت غیرے مالک و مختار سمجھ لیا، مارشل لاء کا دور ہو یا جمہوریت صاف نظر آتا ہے کہ حکومت نے ریاست کے اداروں پر قبضہ جمانے اور انہیں اپنی من مرضی کے فیصلے کرنے پر مجبور کیا ہے۔ جس کی وجہ سے آج ریاست (پاکستان) اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ وہ کیا عوامل ہیں کہ ریاست کی بیوروکریسی کو حکمرانوں نے اپنا زر خرید غلام بنا لیا۔ بیوروکریسی کے قواعد و ضوابط انگریزوں نے بہت سوچ سمجھ کر بنائے تھے۔ ان ہی کے سہارے وہ پونے دو سو سال حکومت کرگئے۔ بیوروکریسی کی پاکستان میں شاندار روایات ہیں۔ لیکن جیسے جیسے انگریزوں کے غلاموں کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے اداروں میں پہنچے انہوں نے رولز اینڈ ریگولیشن کو اٹھا کر ایک طرف رکھا اور سیاست دانوں کے ساتھ مل کر حکمرانوں کے لئے آسانیاں پیدا کیں اور قبل از وقت ترقی، مراعات اور آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کے مرتکب ہوئے سیاست دانوں پر بھی جب چیک اینڈ بیلس نہیں رہا تو وہ بھی بہتی گنگا میں غوطہ زن ہوگئے آج ریاست کنگال ہے اور چند خاندان امیر کبیر بن چکے ہیں۔ ایسی ایسی ہوش ربا داستانیں سامنے آ رہی ہیں جن کے بارے میں پہلے کبھی سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ اس پس منظر میں اب تک جتنے بھی جنرل الیکشن ہوئے ان سب کے بارے میں دھاندلی کے بڑے بڑے واضح اور شفاف الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ 2013ء کا الیکشن، جس کے بارے میں تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ یہ الیکشن دھاندلی زدہ تھے۔ طویل کشمکش اور محاذ آرائی کے بعد سپریم کورٹ کے کمیشن نے کہا کہ دھاندلی ثابت نہیں ہوئی لیکن بے ضابطگیوں کی ایک طویل فہرست ہے جو اس الیکشن میں پیش آئیں یہ علیحدہ بات ہے کہ بے ضابطگیاں ہی تو دھاندلی کی بنیاد ہوتی ہیں۔ پاکستان کے ادارے 2018ء کا الیکشن صاف شفاف کرانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ 25 جولائی سے پہلے تمام جماعتوں نے الیکشن کمپین مکمل کرنی ہے۔ سوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا اور رائے عامہ کے دوسرے ذرائع جو رپورٹس پیش کر رہے ہیں ان کی روشنی میں یہ سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں کہ 2018ء کے انتخابات یقینا بہتر نتائج کے حامل ہوں گے۔ سابق حکمران جماعت جس انتشار خلفشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے وہ لازمی نتیجہ ہے اس بات کا کہ اس کی قیادت حالات حاضرہ کا درست تجزیہ کرنے اور اپنی ذات سے بالاتر ہو کر سوچنے کی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کرسکی۔ الزام تراشی، بے جا تنقید اور ریاستی اداروں پر انگلیاں اٹھانے کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں کے ساتھ مل کر 2018ء کے الیکشن کو دھاندلی سے پاک الیکشن کروانے کی کوشش کریں تاکہ پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں۔ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ دشمن کی سازشوں اور اندرون ملک بیٹھے ان کے سہولت کاروں کی سرکوبی ضروری ہے۔ انتشار، افراتفری، بے یقینی پیدا کرنے کی سرتوڑ کوششیں کی جا رہی ہیں دشمن بھاری رقوم خرچ کر رہا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی قوت اور پاک افواج کی پیشہ ورانہ مہارت اور وطن کے لئے لازوال قربانیوں کی وجہ سے وطن دشمن طاقتیں منظم ہوچکی ہیں۔ اس وقت پاکستان کے دور دراز علاقوں میں NGO's کے ذریعہ بڑے پیمانے پر تخریبی کام جاری ہے۔ ریاست کے وہ ادارے جن کی یہ ذمہ داری ہے کہ ریاست کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی اس سازش میں ملوث افراد کو بے نقاب کریں اور ان پر کھلی عدالت میں مقدمات چلا کر کیفر کردار تک پہنچائیں، کیا کسی دوسرے ملک میں جمہوریت کی آڑ میں کسی کو بھی اس طرح کا کھیل کھیلنے کی اجازت ہے؟ پڑوسی ملک تو کبوتروں کو گرفتار کرکے سازش کا الزام لگاتا رہا ہے۔ محب وطن سیاسی جماعتوں کے سرکردہ لیڈروں کا فرض ہے کہ وہ سیاسی، اقتصادی استحکام کے لیے جان توڑ محنت سے کام کریں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان حالات میں کوئی NRO کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ NRO نہیں ہوسکتا بلکہ NRO ہونا بھی نہیں چاہیے اور نہ کسی نئے عمرانی معاہدہ کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کی آڑ میں ان سیاست دانوں کو جو وطن دشمنی میں پیش پیش ہیں۔ انہیں جیل سے باہر رکھنا کیوں ضروری ہے؟ آنے والی حکومت کے لیے ملک دشمن سوچ سے نبرد آزما ہونا ضروری ہوگا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایک سیاسی جماعت جو پہلے ہی تتربتر ہوچکی ہے الیکشن کی اس دوڑ سے دھاندلی کا شور مچا کر بائیکاٹ نہ کر دے۔ ریاست کے ادارے ماضی کی کوتاہیوں سے بالاتر ہو کر صاف شفاف الیکشن کی ذمہ داریاں پوری کریں۔ قوموں کی زندگی میں ایسے مواقع کم ہی آتے ہیں جب قومیں اپنا قبلہ درست کرتی اور ماضی کی غلطیوں سے نجات حاصل کرکے بہتر مستقبل کے لیے کام کرتی نظر آتی ہیں۔