ننھے سالارالاسلام کے نام کھلا خط!!!

پیارے بچے‘ بہت دعائیں!
تمہیں آج کی انتخابی سیاست کے میدان میں جم کر کھڑا دیکھ کے میرا دل دہل جاتا ہے‘ سوچتا ہوں ہم کیسے لوگ ہیں جو اپنے معصوم بچوں کے شفاف اور سچے چہرے دیکھ کر بھی روشنی سے خراج وصول نہیں کرتے۔ تمہارے لئے میرے ایک ہم جلیس شاعر سید عارف کہہ گئے ہیں‘ بزرگوں سے تو یہ بچے بھلے ہیں‘ جو بے ساختہ سچ بولتے ہیں‘ کاش اس وقت صوفی تبسم یا پھر ضمیر اظہر زندہ ہوتے تو تمہاری معصومانہ تقریروں پر نظمیں لکھتے۔ سوال یہ نہیں کہ تمہارے والد قمرالاسلام پابند سلاسل ہیں اور وہ بے گناہ ہیں یا قصور وار؟ کچھ بھی ہو وہ جرم کے سزا وار ہر گز نہیں‘ اس لئے کہ ان پر تاحال تعزیر ثابت ہی نہیں ہے۔ پیارے بچے تمہارے معصوم چہرے کے عقب میں ان کا سراپا بھی ابھر کر میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ وہ یقیناً ایک متوسط اور سلف میڈ گھرانے کے فرد ہیں‘ جن کے رگ و پے میں دیانتداری ہے‘ میں انہیں دو عشروں سے جانتا اور پہچانتا ہوں۔ اپنے حلقہ انتخاب کے لوگوں سے قریبی تعلق رکھنے والا کوئی اور سیاستدان میں نے ان سے بڑھ کر نہیں دیکھا۔ غریبوں اور مسائل زدہ لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ وہ عمومی زندگی میں روشنی کا ایک مینار ہیں‘ جنہیں نیب نے آہنی ہتھکڑیاں لگا کر جیل کی سنگلاخ دیواروں کے پیچھے دھکیل رکھا ہے‘ لیکن ان کے ساتھ جو بھی زیادتی ہو رہی ہے‘ ان کے مڈل کلاس باسی ہونے کے سبب ہے۔ وہ اگر آصف زرداری‘ یوسف رضا گیلانی یا پرویز اشرف ہوتے تو نیب درگزر سے کام لیتا‘ کیس ختم کر دیتا یا پھر طوالت اختیار کر لیتا۔
پیارے بچے! اب تمہیں سمجھ آیا جو لوگ کہتے ہیں اس ملک میں دہرا قانون ہے‘ وہ درست ہی کہتے ہیں۔ غریب اور مڈل کلاس والوں کے لئے الگ اور اوپر کی الیٹ کلاس کے لئے کچھ اور۔ مجھے بھی اس ملک کے راست گو لوگوں کی طرح اعتراض اس بات پر ہے کہ قمر الاسلام راجا کو کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے بعد کیوں گرفتار کیا گیا؟ انتخابی مہم میں کتنے امیدوار ہیں جو نیب سمیت دیگر عدالتوں کے ان گنت مقدمات کے باوجود بھرپور حصہ لے رہے ہیں‘ ان سب کو بھی گرفتار کر لینا چاہئے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ بقول عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ نواز شریف اور ان کے ساتھی ہی اس وطن عزیز کو کنگال کرنے کے ذمہ دار ہیں‘ میں بھی کہتا ہوں ضرور ہوں گے‘ مگر یہ ثابت تو کیجئے۔ اس سے پیشتر آصف زرداری اور ان کے حواریوں پر بھی یہ سنگین الزام تھا‘ انہیں تو یار لوگوں نے مینڈک کی طرح نہلا دھلا کر پاک اور صاف کر دیا۔ اگر نواز اور زرداری نے اپنی باریاں لگا رکھی ہیں تو انہیں غسل دیکر پاک کرنے والے بھی باری باری ہی یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ رہ گئے عمران خان تو جنرل حمید گل کو دعائیں دیجئے جو یہ پودا لگا گئے‘ یہ تاحال برگ و بار لا رہا ہے‘ دیکھیے پھل کب لاتا ہے؟ اسے چکھ کر ہی بتایا جا سکتا ہے کہ کھٹا ہو گا یا شیریں……!
معصوم بچے! یہ باتیں شاید تمہارے ذہنی کینوس سے بالا ہوں لیکن مجھے ایک بات معلوم ہے کہ تم بہادر ہو اور حقیقتاً سالار بھی ہو۔ تمہیں شاید معلوم ہو چند سال پہلے تم اپنے ابو کے ساتھ میرے غریب خانے پر آئے تھے۔ میرا بیٹا جنید زاہد بھی تمہارا ہم عمر ہے۔ میں اور تمہارے ابو کامن روم میں بیٹھ کر چائے پیتے رہے جبکہ تم جنید زاہد کے ساتھ اس کے کمرے میں کمپیوٹر پر گیم کھیلتے رہے۔ اس موقع پر میں نے قمر الاسلام راجا سے کہا تھا‘ تمہارا بیٹا سالار ماشاء اللہ بہت ہونہار اور بہادر ہے‘ مستقبل میں بڑا آدمی بنے گا۔ یہ سن کر تمہارے ابو مسکرا دئیے تھے۔ مجھے فخر ہے آج تم بڑے آدمی بھی ہو لیکن بڑے آدمی کے قد تک پہنچ کر بچوں میں سب سے بڑے بن گئے ہو‘ ماشاء اللہ۔ تمہیں پتہ ہے علامہ اقبالؒ نے شائد تمہارے لئے ہی کہا تھا ؎
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آداب فرزندی
مجھے فخر ہے کہ تم بہادری‘ ایثار اور وفا میں اپنے والد کے نقش قدم پر ہو۔ اس ناتے سے تم وطن عزیز کے ہر بچے کے لئے رول ماڈل ہو‘ ہم نے اے پی ایس کے باوفا شہید بچوں سے بہت کچھ سیکھا‘ جنہوں نے ہماری جھولیاں پھولوں اور نگینوں سے بھر دی تھیں۔ دہشت گرد جب ان بچوں کو بارود سے چھلنی کر رہے تھے تو اس وقت بھی یہ معصوم انہیں انکل انکل کہہ کر پکار رہے تھے۔ یہی شائستگی میں نے آج تمہارے لب و لہجے میں بھی پائی ہے۔ صد شکر پاکستان کے سارے بچے سالار الاسلام ہیں‘ وفا شعار‘ سچے اور شائستہ۔ میرا بیٹا جنید زاہد آج کل اپنی والدہ کے ساتھ چھٹیاں گزارنے اور چند شادیوں میں شرکت کے لئے کراچی گیا ہوا ہے۔ سالار بچے! جب اس نے ٹی وی کی خبروں میں تمہیں دیکھا تو فون کر کے مجھ سے تفصیل پوچھنے لگا‘ میں نے اسے آگاہ کیا تو کہنے لگا ابو اگر آپ چاہیں تو میں واپس آ کر اپنے دوست سالار کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہوں۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں نے دل میں کہا ہمارے بچے کتنے اچھے ہیں‘ ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ سانجھ اور اکٹھ کو پسند کرتے ہیں‘ کاش ہم سب بھی ان کی طرح ایک ہو جائیں۔ اللہ کرے وہ دن آئے جب ہمارے بچے انگلیاں پکڑ کر ہمیں ایک دوسرے سے بغل گیر ہونے کے لئے کہیں گے۔
پیارے سالار! تمہارا معصوم اور بیباک بشرا ہر وقت میرے سامنے رہتا ہے‘ تمہیں ٹی وی پر دیکھتا ہوں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں‘ میں تمہارا اور تمہارے خاندان کا دکھ سمجھ سکتا ہوں۔ کون سنگدل ہو گا جو تمہارے انسانی دکھ میں شرکت نہ کرے۔ قمر الاسلام راجا میرے دوست اور تم ان کے بیٹے میرے لئے جنید زاہد کی طرح ہو۔ آج میرا سینہ چھلنی اور جگر سوختہ ہے۔ سنگدلوں کے اس معاشرے میں زخمی چڑیا پر رحم کھانے کے بجائے اسے بھی مار دیا جاتا ہے‘ سینوں میں دلوں کی دھڑکنیں نہیں رہیں‘ پتھروں کی ہلچل ہے‘ انسانی دکھ تو کیا حقیقی دکھوں کو محسوس کرنے کی حس بھی مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ پیارے بیٹے! جب تم کسی ٹی وی پروگرام میں گفتگو یا کسی انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہو تو دل چاہتا ہے اس قوم کے کار پردازوں کا گریبان پکڑ کر پوچھوں کہ بتاؤ تم نے بھی کبھی زندگی میں وفا کا دامن تھام کر پل صراط سے گزرنے کی کوشش کی ہے؟ پیارے بچے تم ہمارا مان ہو‘ بچپن کے اس سن میں گرمی کی چھٹیوں کی ساری تفریح اور کھیل کود کا مزہ تم نے ایک بڑے کاز کی نذر کر دیا ہے‘ یہ ایثار ہے یا اسے قرآن کی زبان میں احسان کہیے‘ تمہارے جیسے معصوم بچے کی یہ مساعی دلوں کو موم کر رہی ہے‘ ہمارا حقیقی مستقبل تم سے ہی وابستہ ہے‘ بیٹا سچائی اور دیانت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑنا‘ زندگی وفا شعاری کے ساتھ ہی گزاری جا سکتی ہے‘ حسینؓ بن کر جیو اور علیؓ بن کر للکارنا سیکھتے رہو۔ رسول پاکؐ کی زندگی کے ایک ایک پل سے خوشہ چینی کرنے والا ہی حقیقت میں کامیاب ہے۔ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے فرمودات کو کبھی پس پشت نہ ڈالنا‘ دولت سے محبت نہ کرنا کیونکہ یہ پھولوں کی سیج سے آگ کا راستہ دکھاتی ہے۔ اقبالؒ کا یہ فرمان یاد رکھنا‘ میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے۔ سالار بیٹا! میاں محمد بخشؒ کی بیان کی ہوئی اس حقیقت تک تو تم پہنچ ہی چکے کہ باپ سر کا تاج ہوتے ہیں‘ تمہارے سر پر یہ تاج سجا ہے تو اس کی حفاظت کرنا‘ رہزنوں سے بچانا اسے‘ کہ راستے میں جابجا ڈاکو اور لٹیرے بیٹھے ہیں۔ میرے بچے! تمہارے لئے اللہ کی پناہ اور اللہ ہی کی حفاظت۔ یاد رکھنا جب تمہارے ابو جیل سے رہا ہو کر آئیں تو آگے بڑھ کر ان کی قدم بوسی کرنا‘ یاد رکھنا ایسی عزت اور ایسی توقیر آج تک وطن عزیز کے کسی ننھے فرشتے کو حاصل نہیں ہوئی‘ جیسی تمہارے حصہ میں آئی ہے۔ تمہارے لئے بہت دعائیں اور پیار: تمہارا انکل۔

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

ای پیپر دی نیشن