5جولائی 1977پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو غیر آئینی طور پر ختم کر کے آرمی چیف جنرل ضیاء نے ملک میں مارشل لاء نافذکر دیا 11سالوں پر محیط اس بدترین دور نے پاکستان کی ریاست کو وہ نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے کہ 42سال گزر جانے کے باوجود ملک کے سماجی ،سیاسی اور معاشی معاملات آج بھی اس تاریک دور کے اثرات کے زیر اثر ہیں۔جنرل ضیاء کی وراثت کے منحوس سائے آج بھی میرے وطن کے اجالوں کو داغ داغ کیے ہوئے ہیں۔لہو رنگ عبادت گاہیں ،بندوقوں کے سائے میں عبادت ،سکول کے بچوں کے یونیفارم سیاہی کے چھینٹوںکے بجائے خون میں تر، مستقبل کے معماروں کی آنکھوں میں امید کی بجائے موت کا خوف ،میرے کھلیانوں میں سر شاری کے رقص کی بجائے موت کا رقص جنرل ضیاء کی قابل مذمت وراثت ہی کے بگاڑ ہیں۔پر تشدد اور منتشر معاشرہ ، عوام کی خدمت سے غافل انتہائی کمزور ریاستی ادارے اور تباہ حال میعشت اس پُر آشوب دور کا حاصل ہیں
ذوالفقار علی بھٹو نے عدالت کے روبرو جنرل ضیاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا "میرا مقام ستاروں پر رقم ہے اورمیرا مقام بندگانِ خدا کے دلوں میںہے ،میں محکوموں اور بے وسیلائوں کا نمائندہ ہوں ۔میرے مطابق عوام مملکت کو صیحح تحفظ و سلامتی فراہم کر سکتے ہیں۔میں مفلوک الحال اور بے گھر لوگوں کی نمائندگی کر تا ہوںاور تم اشرافیہ کی نمائندگی کرتے ہو۔میں معاشی مساوات پر یقین رکھتا ہوںاور تم سرمایہ دارانہ نظام پر۔ میرا یقین ٹیکنالوجی پر ہے اور تمہارا ریاکاری پر۔ میرا یمان دستور پر ہے اور تم اسے کاغذ کا پرزہ گردانتے ہو ۔ میں خواتین کی آزادی چاہتا ہوں اور تم انہیں اندھیرے میں چھپائے رکھنا چاہتے ہو ۔
شہید بھٹو کے الفاظ کی صداقت تاریخ اور جنرل ضیاء کے 5جولائی کے شب خون کے بعد کی چار دہائیوںکے ہر لمحہ سے ثابت ہے ۔جنرل ضیاء کے بہیما نہ اور ظالمانہ دور کے خلاف کی جانے والی بے نظیر جدوجہد بھی نہایت شاندار اور عظیم تھی جس کے نتیجے میں ملک میں کسی حد تک جمہوری نظام اور عوامی حقوق بحال ہوئے اور جسم قید سے آزاد اور گفتار پرتعزیریں ختم ہوئیں مگر اس ضیاء دور نے فکری ارتقاء کو روک دیا بلکہ فکر کو محبوس کر دیا جس کا خمیازہ آج ملک کا ہر فرد اس گھٹن زدہ ماحول کا شہری ہو کر ادا کر رہا ہے ۔ یعنی ضیاء کے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ’’فکر محبو س ہے‘‘۔
جنرل ضیاء نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے مذہب کو بطور ڈھال استعمال کیا جس کے اثرات ہم آج بھی مذہبی انتہاء پسندی اور دہشتگردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں 5جولائی سے شروع ہونے والی نحوست اور وحشت آج بھی دہشتگردی فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کی انتہائی بھیانک صورت میں اپنے پنجے گاڑے کھڑی ہے ۔ جنرل ضیاء نے ملک اور اس کے قانونی ، تعلیمی، سیاسی ، معاشی اور سماجی نظام کو اسلامی بنانے کے خود ساختہ مشن کا آغاز کیا اور اپنے ناجائز اقتدار کوجائز ثابت کرنے کے لیے سیاست اور مذہب کو اس انداز میں مدغم کیا جس نے معاشرے کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کر دیا ۔ افغانستان میں اقتدار اور اجارہ داری کی جنگ کو مقدس جنگ ثابت کرنے کے ڈھونگ نے پاکستان کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا کہ اس نے ملک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا اس امریکی مفادات کی جنگ کو کمیونزم اور اسلام کی جنگ بنا کر پیش کیا گیا اور ریاستی سرپرستی میں عسکری تنظیمیں بنائی گئیںاور دنیا بھر کے دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی کی گئی جس کا نتیجہ القاعدہ اور طالبان کی صورت میں سامنے آیا جو آج ریاست کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں ۔ ہیروئین، کلاشنکوف کلچر، مدارس کی تعداد میں بیش بہا اضافہ اور لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی آمد اسی نام نہاد جہاد کا نتیجہ ہے ۔ افغان جنگ کو جائز ثابت کرنے کیلئے مذہب کی ایسی تشریح کی گئی کہ آج مذہبی آزادیوں کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک میں یہ حق ناپید ہوتا جارہا ہے اور مذہبی آزادی کے معاملے میں’’ فکر محبوس ہے‘‘ ۔
جنرل ضیاء سے قبل آمرانہ حکومتوں نے بھی سیاست کو ہمیشہ زہر قاتل قرار دیا مگر جس قدر سیاست کی تذلیل ضیاء دور میں ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔ جنرل ضیاء نے سماج کو غیر سیاسی کرنے کے لیے اسے تقسیم در تقسیم کے عمل سے یوں گزارا کہ آج ہمارا معاشرہ ریزہ ریزہ ہو چکا ہے ۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے مقبول عوامی راہنما کو عدالتی قتل کے ذریعے ختم کرکے سمجھا گیا کہ بھٹو کا سحرختم ہو گیا مگر ثابت ہوا کہ فرد کو ختم کرنے سے نظریہ ختم نہیں کیا جاسکتا مگر اس خونِ نا حق نے پاکستان کی سیاست کو خونی لکیر کے ذریعے تقسیم کر دیا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قومی حیثیت کو ختم کرنے کے کیلئے علاقائی ، لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ جماعتوں کو مضبوط کیا گیا لہٰذا قومی سیاست کمزور ہوئی اور عصبیت کی سیاست کو فروغ حاصل ہوا ۔
بھٹو صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ ملک میں جمہور کوریاست اور سیاست سے جوڑنا تھا ۔ جنرل ضیاء اور اس کی سوچ کے پیروکاروں نے جمہور کو سیاست اور ریاست سے لاتعلق کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا اور آج بھی سیاست اور سیاستدانوں کو ہر بُرائی کی جڑ ثابت کرنے کا مشن جاری ہے ۔جنرل ضیاء نے ریاست کے وسائل کا رخ اس کو سیکورٹی سٹیٹ بنانے کی طرف موڑ دیا نتیجتاً ریاست کی ترجیح عام آدمی نہ رہا اور فلاحی ریاست کا نظریہ معدوم ہو گیا ۔ لہٰذا آج بھی پاکستان میں آئینی اور سیاسی معاملات میں ’’ فکر محبوس ہے‘‘ ۔
آج اگر ہمیں پاکستان کو قائد اعظم کے تصورات کے مطابق ایک پر امن ، خوشحال، ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو ہمیں جنرل ضیاء کی منحوس وراثت کے آسیب سے نکلنا ہوگااور محبوس فکر کی آزادی کی جدوجہد کو منزل مقصود تک پہنچانا ہوگا ۔ نوجوان نسل کو اس عظیم جدوجہد میں شامل ہو کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہماری ترجیح رواداری ہے یا انتہا پسندی ہمیں شعور اور جہالت میں سے ایک کو چننا ہوگا ہمیں برداشت اور عدم برداشت میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا ۔ ہمیں جمہوریت اور آمریت میں سے ایک کے حق میں فیصلہ کرنا ہوگا اور ہمیں فساد اور امن میں سے ایک کواپنانا ہوگا ۔ اگر ہمارا انتخاب رواداری ، شعور برداشت ، جمہوریت اور امن ہے تو یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کا اصل چہرہ قائد اعظم محمد علی جناح، قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو اورشہید جمہوریت بے نظیر بھٹو ہیں۔ ہمیں ایسی سوچ سے آزادی حاصل کرنا ہے ۔ جس نے ہمارے سماج اور امن پسند ثقافت کوتباہ و برباد کر دیا او ر پاکستان کے ہر شہر کو مقتل گاہ بنا دیا ۔ ہمیں اپنے نظریاتی مقام اور صوفیانہ ثقافتی ماحول کو واپس حاصل کرنا ہوگا ۔ جو شدت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے ۔ ہمیں ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جہاں مذہب روحانی سکون دے نہ کہ تقسیم اور تفرقے کی بنیاد بنے ہمیں عوام کے حق حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ریاستی آئینی اداروں کو بالا دستی دینا ہوگی تاکہ عوام طاقت کا سرچشمہ قرار پائیں اور معاشی مساوات کے ذریعے پاکستان کو فلاحی ریاست بنایا جاسکے ۔
عرصہ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے پہ یونہی تونہیں رہنا ہے
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گر انبار ستم
آج سہنا ہے ، ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے
ظلمت کو ضیاء کیا لکھنا
Jul 05, 2019