وزیر اعظم عمران خان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چاہے جس بھی بادشاہ سے سفارش کرا لیں، جہاں مرضی جائیں، جس کے بھی گھٹنے دبائیں، این آر او نہیں دوں گا۔ ملک کا ایک ایک ادارہ ریکارڈ خسارے میں چل رہا تھا۔ اس کے پیچھے کرپشن تھی۔ ملک وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں کرپشن کی وجہ سے غریب ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹا گیا۔ ایسا کرنیوالے کسی رو رعایت کے ہرگز مستحق نہیں، ان سے پائی پائی کا حساب لینے کی ضرورت ہے جس کے لیے تحریک انصاف کی حکومت پرعزم ہے۔ کرپشن کے حوالے سے مقدمات میں تیزی آ رہی ، متعلقہ ادارے فعال ہیں۔ جس کے باعث بڑے بڑے لوگ قانون کی گرفت میں آ رہے ہیں۔ کرپشن میں ملوث لوگوں کے خلاف کیس قائم کرنا حکومت کے ماتحت اداروں کی ذمہ داری ہے، اس کے بعد معاملہ عدلیہ کے سپرد ہو جاتا ہے جہاں ثبوتوں کی ضرورت پوری کرنا بھی متعلقہ اداروں کاکام ہے۔ ملزم کو صفائی کا موقع د یا جاتا ہے۔ ثبوت نہ ہوں تو ملزم باعزت بری ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ الزام ثابت ہونے پر قید و بند کی سزائیں اور جرمانے ہوتے ہیں۔ حکومتی سطح پر کوشش ہونی چاہئے کہ ملزموں کے خلاف ٹھوس ثبوت فراہم کئے جائیں۔ وزیر اعظم کے کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے عزم و ارادے میں کوئی شک نہیں تاہم احتساب کا ایک طریقہ کار موجود ہ ہے اس پر خاموشی سے عمل کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم سمیت حکومتی ذمہ داروں کی طرف تندوتیز بیانات سے سیاسی ماحول میں کشیدگی بڑھتی اور سیاسی انتقام کا تاثر بھی پیدا ہوتا ہے۔
سیاست میں تندو تلخ لہجے سے گریز کی ضرورت
Jul 05, 2019