کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان اس میں بسنے والے لوگوں خصوصاً کمزور، ناتواں اور پسماندہ طبقات کو سماجی اور معاشی انصاف کی فراہمی سے ہے جس کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ اعلیٰ سماجی اقدار کی پاسداری تبھی ممکن ہے جب غریبوں، بیوائوں اور یتیموں کو معاشی انصاف کے ساتھ ان کی عزت نفس کا بھی پورا خیال رکھا جائے۔ دنیا میں مہذب اور فلاحی ریاست کہلانے والے ممالک میں سب سے زیادہ زور ایسے ہی طبقات کی فلاح و بہبود پر دیا جاتا ہے اور دراصل اسلامی تعلیمات کی بنیاد بھی سماجی بھلائی اور غریب پروری کے اصولوں پر رکھی گئی ہے ، حقوق العباد کو دین کی اساس قرار دیاگیا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا ’’خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے ، میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا۔‘‘
علامہ اقبال نے اسلامی تعلیمات کا پورا فلسفہ اپنے اس شعر کے ذریعے بیان کردیا۔ فلاحی ریاست مدینہ کا تصور بھی یہی ہے۔ ریاست مدینہ میں ضعیف العمر افراد، بیوائوں، مساکین، یتیموں اور ضرورت مندوں کو بیت المال سے وظائف دیئے جاتے تھے تاکہ وہ اپنی زندگی کی گاڑی کو چلا سکیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے جب پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کیا تو ان کے ذہن میں بھی ایک ایسے نظام حکومت کا خاکہ تھا جہاں سب کو سماجی اور معاشی انصاف میسر ہو، دولت پر صرف طاقتور طبقہ قابض نہ ہو، غریبوں، مسکینوں کے حقوق کو ئی غصب نہ کرسکے۔ عمران خان نے پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانے کیلئے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے اور اس حوالے سے وزیراعظم کے ویژن کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت پنجاب کے ’’پنجاب احساس پروگرام‘‘ کاآغاز نئے مالی سال سے کر دیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت 2019-20کے پیش کئے گئے بجٹ میں عوامی فلاح کے اس پروگرام کیلئے 9ارب روپے رکھے گئے ہیں اور ماضی کے میگاسٹرکچر منصوبوں کے برعکس ’’پنجاب احساس پروگرام ‘‘میں معاشرے کے پسماندہ، کمزور اور پسے ہوئے طبقوں کی مالی معاونت کرکے انہیں بے یارومددگار ہونے سے بچانا ہے تاکہ وہ بھی عزت کی زندگی گزار سکیں۔ اب یہ نہیں ہوگا کہ اربوں روپے کاسمیٹکس میگاپراجیکٹس پر محض سیاسی منفعت کیلئے خرچ کر دیئے جائیں اور عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہوں۔ سوچنے کی بات ہے ، یہ کیسی منطق ہے کہ گھر کے بچے اور اہل خانہ کپڑوں اور کھانے کو ترس رہے ہوں اور گھر کا سربراہ ڈش انٹینا اور 56انچ کی LEDخرید کر لے آئے اور وہ بھی قسطوںپر۔ اللہ کے بندو پہلے عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کر لو اس کے بعد لگژری منصوبوں پر اربوں کھربوں روپے خرچ کرو۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی پہلی ترجیح غریب عوام کے معاشی اور سماجی مسائل پر توجہ دینا اور ان کا معیار زندگی بہتر بنانا ہے۔ اس اعلیٰ مقصد کے حصول کیلئے جو منصوبہ بندی کی گئی ہے اس میں پنجاب احساس پروگرام کا اجراء شامل ہے۔
پنجاب احساس پروگرام کے تحت 65سال سے زائد عمر کے بزرگوں کی مالی معاونت کیلئے 3ارب روپے کی لاگت سے ’’باہمت بزرگ‘‘ پروگرام متعارف کرایا گیاہے جس کے تحت غربت کا شکار ایک لاکھ 50ہزار افراد کو ماہانہ 2ہزار روپے الائونس دیا جائے گا۔ یہ بزرگ عوامی مفاد کے پیغامات اپنے اہل علاقہ تک پہنچانے میں بھی معاونت کریںگے۔ معاشرے میں بسنے والے بہت سے معذور افراد ایسے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے جو حکومت اور سماج دونوں کی توجہ چاہتے ہیں لیکن آج تک کسی نے ان محروم لوگوں پر توجہ نہیں دی ہے ایسے معذور ،بے سہارا مستحق افراد کی کفالت پر رواں مالی سال میں 3ارب 50کروڑ روپے ’’ہم قدم‘‘ پروگرام کے تحت خرچ کئے جائیں گے۔ اس پروگرام سے 2لاکھ سے زائد افراد استفادہ کریںگے۔ پروگرام کے تحت غریب اور معذور افرادکیلئے مائکرو فنانسنگ کی جائے گی۔حکومت نے ماضی کی محرومیوں کا ازالہ کرنے ، پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کی آواز بننے کا فیصلہ کیا ہے جو پاکستان تحریک انصاف کا ’’ماٹو‘‘ ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور ان کی پوری ٹیم نے پنجاب کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے ماضی کی شاہ خرچیوں اور اللّے تللّے کرنے کے بجائے قومی خزانے کا رُخ غریب عوام کی فلاح و بہبود کی طرف موڑ دیا ہے۔ پنجاب احساس پروگرام کے تحت بیوائوں اور یتیموں کی کفالت کیلئے 2ارب روپے ’’سرپرست‘‘ پروگرام پر خرچ کئے جا رہے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت بیوہ خواتین کی مالی معاونت کیلئے ابتدائی طور پر ماہانہ 2ہزار روپے کا وظیفہ فی کس دیا جائے گا۔بعدازاں اثاثوں کی منتقلی اور ایزی کریڈٹ سکیمز متعارف کرائی جائیں گی۔اسی طرح کم آمدن والے بزرگ اور ضرورت مند فنکار ، شاعر ،ادیب ، صحافی اور فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والے افراد ایک عرصہ سے نظرانداز چلے آ رہے تھے جن کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ایسے افراد کو پہلی مرتبہ انصاف مہیا کرنے کا عزم کیا ہے اور ایسے مذکورہ افراد کا کم از کم 5ہزار روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائے گا ۔اگرچہ یہ وظیفہ آج کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں تاہم کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ حکومت سخت معاشی بدحالی کے باوجود مستحق افراد کی مدد کیلئے میدان عمل میں اتری ہے جیسے جیسے معاشی حالات بہتری کی جانب جائیں گے غریبوں اور مستحق افراد کی مالی معاونت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔’’پنجاب احساس پروگرام‘‘ دراصل اس احساس کی ترجمانی کرے گا جو پہلی مرتبہ پنجاب کی حکومت کے دل میں عوام کیلئے پیدا ہوا ہے۔ اس احساس کے اظہار کیلئے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے عوام کی خدمت اور حق داروں کو ان کا حق دلوانے کیلئے اپنی عملی جدوجہد کا آغاز کیا ہے اور عوام کا پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر ہی خرچ کیا جا رہا ہے۔ معاشرے کا ایک انتہائی نظرانداز اور پسماندہ طبقہ خواجہ سرائوں کا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو معاشی اور سماجی دونوں طرح سے استحصال کا شکار ہے۔ حکومت نے صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواجہ سرائوں کی فلاح و بہبود کیلئے باقاعدہ پالیسی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور ’’مساوات‘‘ پروگرام کے تحت 20کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس کا مقصد خواجہ سرائوں کا معیار زندگی بہتر کرنا ہے۔ ہمارا ملک اور صوبہ ماضی میں بدترین دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور دہشت گردی کے واقعات میں جہاں پاک فوج اور پولیس جوان شہید ہوتے ہیں وہیں معصوم سول شہری بھی انسانیت کے دشمنوں کی بزدلانہ کارروائیوں میں اپنی جانیں گنواتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے پہلی مرتبہ 300ملین روپے کی لاگت سے ’’خراج شہدا ء پروگرام‘‘ شروع کیا ہے جس کے تحت دہشت گردی کا شکار سول شہداء کی بیوائوں اور یتیموں کی کفالت کو اس وقت تک یقینی بنایاجائے گا جب تک وہ خود کفیل نہ ہوجائیں۔ رواں مالی سال میں 1500خاندان اس پروگرام سے مستفید ہوں گے۔
ریاست مدینہ کے تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے حکومت پنجاب نے بے آسراء اور بے گھر افراد کو رات بسر کرنے کیلئے پناہ گاہوں کے قیام کا جو منصوبہ متعارف کرایا تھا وہ نہایت کامیاب رہا ہے۔ ان پناہ گاہوں میں مسافروں اور بے سہارا افراد کو ناصرف رات گزارنے کیلئے معیاری سہولیات فراہم کی جاتی ہیں بلکہ رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ بھی فراہم کیاجاتا ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کے پیش نظر پنجاب احساس پروگرام کے تحت پورے پنجاب میں پناہ گاہوں کے قیام کو یقینی بنایاجائے گا۔ ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی تکلیف دہ اور انسانیت سے گرا ہوا مسئلہ تیزاب گردی ہے جس کا شکار عموماً خواتین ہوتی ہیں ایسی مظلوم خواتین کی بحالی کیلئے ’’کندن‘‘ پروگرام کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ متاثرہ افراد کی سرجری سے فنی و پیشہ ورانہ تربیت اور گزراوقات کیلئے بلاسود قرضوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ اس مقصد کیلئے 100ملین روپے فراہم کئے گئے ہیں۔ خواتین ہماری آبادی کا نصف سے بھی زائد ہیں اتنی بڑی تعداد کو ترقی کے سفر میں شریک کئے بغیر صوبے کی ترقی کا تصور ممکن نہیں۔ خواتین کو معاشی طور پر خودکفیل بنانے اور ترقی کے سفر میں شانہ بشانہ شرکت کیلئے ’’ویمن انکم گروتھ‘‘ پروگرام متعارف کروایا جا رہا ہے جس کے تحت 8ارب روپے کی خطیر رقم سے خواتین کی فنی و پیشہ ورانہ تربیت اور باعزت روزگار کا اہتمام کیا جائے گا اور ہیومن کیپٹل انویسمنٹ پراجیکٹ کے تحت صوبے کے 16غریب ترین اضلاع میں مشروط کیش ٹرانسفر کے ذریعے مائوں اور نومولود بچوں کی صحت اور نشوونما، تعلیم و تربیت اور خودکفالت کا پروگرام متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ 16کم خواندہ اضلاع میں ثانوی تعلیم حاصل کرنے والی 6لاکھ سے زائد بچیوں میں ماہانہ وظائف تقسیم کرنے کیلئے 6ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے میگاپراجیکٹس کی تعریف (Defination) کو تبدیل کر دیا ہے اب محض سڑکوں اور پلوں کی تعمیر میگاپراجیکٹس نہیں بلکہ عوام کی صحت ، تعلیم اور فلاح و بہبود پر سرمایہ خرچ کرنا اصل انویسٹمنٹ ہے۔ پنجاب احساس پروگرام کی کامیابی سے عوام میں یہ شعور ضرور پیدا ہوگا کہ’’ دیر آید درست آید‘‘ کسی کو تو معاشرے کے محروم، پسماندہ اور ٹھکرائے ہوئے طبقات کے مسائل اور دکھ، تکلیف کا احساس پیدا ہوا ہے۔ کوئی تو ہے جو یتیموں، بیوائوں، معذوروں، مستحق اور بے سہارا لوگوں کا سہارا بننے کیلئے تیار ہوا ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے شروع کئے گئے ’’پنجاب احساس پروگرام‘‘ نے ناامید اور مایوس لوگوں کی زندگیوں میں پھر سے زندگی کی امید جگا دی ہے۔ امید کی یہ کرن جلد آفتاب بن کر چمکے گی۔ عوام کی قسمت پر دہائیوں سے پڑے آسیبی سائے دور ہونے کا وقت آن پہنچا ہے۔پاکستان تحریک انصاف وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں وطن عزیز کو ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی اور اس جدوجہد میں پنجاب کی حکومت اور قیادت وزیراعظم عمران خان کا ہر اوّل دستہ ثابت ہوگی۔