ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا سنانے والے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹا دیا ہے جس سے ارشد ملک کی طرف سے دیے گئے فیصلوں پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور ن لیگ انتقامی بیانیے کو مزید تقویت مل گئی ہے اسی لیے ن لیگ مٹھائی بانٹتی دکھائی دے رہی ہے ویسے بھی برسر اقتدار اور بر سر پیکار دونوں نے گذشتہ دو سالوں میں انتقامی بیانیئے داغنے اور مٹھائیاں بانٹنے کے سوا کچھ خاص کیا ہی نہیں بایں وجہ حالات کو دیکھ کر اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ تبدیلی سرکار کے جانے کا وقت آ گیا ہے اور وزیراعظم خود اپوزیشن کو جواب دے رہے ہیں کہ’’ مائنس ون ہوا تو احتساب رکے گا نہیں‘ویسے میرے علاوہ کوئی چوائس بھی نہیں ہے‘‘ جبکہ حکومتی گورننس سوالیہ نشان ہے کہ حکومتی مالی سال کا تیسرا سال شروع ہو چکا ہے اورجاگیر دارانہ نظام کی حشر سامانیوں کو جڑ سے اکھاڑنے اور کروڑوں باشندوں کا معیار زندگی یک دم اونچا کر کے فوری تبدیلی لانے کے تمام دعوے ہوا ئی قلعے ثابت ہو چکے ہیں ۔یہ طرفہ تماشہ ہے کہ جونہی وزیراعظم ملک میں پیدا ہونے والے کسی بھی بحران کا نوٹس لیتے ہیں تو مسئلہ مزید سنگینی اختیار کر لیتاہے جس نے باشعور عوام کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔یوں لگتا ہے کہ جیسے حکومتی رٹ کو مسلسل چیلنج کیا جا رہا ہے کیونکہ آٹا ،چینی ،ادویات اور پٹرو ل غائب کرنے والے ذمہ داروں کے خلاف لفظی کاروائی کے سوا کچھ بھی نہیں کیا جا رہا حالانکہ دعوے تو مگر مچھوں کو پکڑنے کے تھے مگر اب سوچا ہے کہ مگر مچھ سے بیر رکھ کر سمندر میں رہنا مشکل ہو رہا ہے سچ کہتے ہیں کہ سمندر کی گہرائی کا اندازہ کنارے سے کبھی نہیں ہو سکتا مگر ایسے میں خسارہ صرف عام آدمی کو ہو رہا ہے اس کا جینا ہی نہیں مرنا بھی مشکل ہو چکا ہے وہ فریاد کس سے کرے وہ تو مکمل طور پر ر’ل چکا ہے
اگر خلوص نیت کی بات کی جائے تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ پارلیمنٹ فلور پر کھڑے ہو کر کہا جاتا ہے کہ 260 پائلٹوں کے لائسنس سوالیہ نشان ہیں یقینا ایسا ہی ہے مگر اس کا جونتیجہ نکلا ہے وہ خلوص نیت کا نام دی جانے والی کاروائی پر مزید سوالیہ نشان لگا گیا ہے اور ایسا ہی ہو رہا ہے جو بھی قدم اٹھایا جاتا ہے اس کے اثرات ملک وقوم کو مزید بحرانوں میں مبتلا کئے جا رہے ہیں ۔کیا وجہ ہے کہ کوئی بھی فیصلہ دور رس اور بہتر نتائج کا مظہر نہیں ہوتا اورحکومتی صفوں میں ہی بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ایک کروڑ نوکریوں کا دعوی تھا مگر ایک کروڑ سے زائد بے روزگار ہو چکے ہیں اور حکومتی اکابرین کا دعوی ہے کہ کرونا کیوجہ سے مزید ایک کروڑ سے زائد لوگ بیروزگار ہو جائیں گے ، اسٹیل ملز ،پی آئی اے اور اب پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ میں بہت سے ہوٹل بند اور لوگوں کو فارغ کر دیا گیا ہے ۔ہر چلتے ادارے کو بند کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ اسے ری سٹرکچر کرنا ہے کیونکہ خسارے میں جا رہا ہے سوال تو یہ ہے کہ گذشتہ دو برسوں میں ری سٹرکچر کے نام پر جو کچھ کیا جا رہا ہے اس سے ملک و قوم کو کتنا نفع و نقصان ہوا ہے اس کا حساب کس نے کرنا ہے ؟پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا وعدہ تھا مگر پچاس لاکھ سے زائد مہنگائی بحران کیوجہ سے بے گھر ہو چکے ہیں ،اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان میں پرکشش اور ہینڈ سم سیلریز کے مواقع فراہم کرنے کا وعدہ تھا مگر ان کی آنکھیں نم ہیں اور وہ مدد کیلئے پکار رہے ہیں جو پاکستان میںہیں وہ بھی پریشان ہیں کیونکہ روزگار ختم ہو چکا ہے ۔ظلم کا عنصر ختم نہیں ہو سکا کہ با اثر افراد کی طرف سے غریب اور مجبور افراد پر ظلم و ستم شدت اختیار کر رہا ہے اور دہشت گردی بھی سر اٹھاتی دکھائی دے رہی ہے ۔کوئی جوابدہ نہیں ہے بلکہ سوال کرنے والے کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو مسجد کے چوکیدار نے نمازی کے ساتھ کیا تھا۔اگر عمودی انداز سے جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آرہا ہے کہ بد عنوانیوں کا سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے بھی بڑھ گیا ہے خواہ وہ ماضی کے حکمران ہوں یا موجودہ سبھی اس کا تدراک کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ پہلوں کی طرح اپنے ساتھ ایسے مفاد پرستوں کو بٹھا لیا گیا ہے جو بد عنوانیوں اور ریشہ دوانیوںکے نئے نئے امکانات اور نئے نئے طریقے لے کر آئے ہیں اور بظاہر یوںہی لگتا ہے کہ جیسے سب جائز اور مناسب ہے اور سیاست اسی طرح کرنی چاہیے مگر پس پردہ سبھی نے سیاست کو منافع بخش کاروبار بنا رکھا ہے ۔بہرحال یہ انتہائی نشیب و فراز کی صورت حال آج یکایک پیدا نہیں ہوگئی بلکہ یہ پچھلے بہتر برس کے مختلف اقدامات کا نتیجہ ہے جسے آج داستان گذشتہ ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہو سکا اب تو بہت سے سوال اٹھ چکے ہیں یعنی عمران خان کی سیاست کدھر جا رہی ہے ؟احتسابی عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان ہے ؟ترقی کی کونسی منازل طے کر لی ہیں جو مزید طے کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے ؟اور دو برس تو بیت گئے ہیں تو ریاست مدینہ کے قیام کو مزید کتنا وقت درکار ہے ؟عوامی ریلیف کے لیے ابتک کیا کیا گیا ہے ؟ کرونا کی تباہیوں سے نپٹنے کے لیے کونسی حکمت عملیاں اختیار کی جارہی ہیں ؟ آٹا ،چینی ،پٹرول اور ادویات کے ذمہ داروں کا تعین کب اور کون کرے گا ؟ اگر آپ بے بس ہیں تو پھرحالات کو وقت اور عوامی توقعات کے مطابق لے کر چلنا کس کے بس میں ہے؟