سری نگر کا شہری بشیر احمد اپنے تین سالہ نواسے کے سامنے شہید ہوگیا ۔ جسے بھارتی پولیس بڑی ڈھٹائی سے عسکریت پسندوں کے کھاتے میں ڈال کر اپنا دامن بچانا چاہتی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تین سالہ بچے کی تصویر اور ویڈیوزکو بھارتی میڈیا آڑ بنا کر پروپیگنڈہ کررہا ہے۔ بچہ چوکلیٹ اور بسکٹس مانگتا ہے اور اپنی امی کے پاس جانے کا کہتا ہے تو ایک خاتون اسے دلاسا دیتے ہوئے اسے گھرچھوڑنے کا کہتی ہے۔ اس پولیس افیسر کو بھارتی میڈیا ہیرو بنا کر پیش کررہا ہے ،جس نے بچے کو گود میں اٹھا رکھا ہے۔ کئی آرٹسٹوں نے اس تصویر پر سلائیڈیں بنائیں ہیں۔ عالمی دنیا کو شرم دلانے کے لیے اور انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں کی آنکھیں کھولنے کے لیے اس تصویرکو حقیقت کا چشمہ لگا کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت اپنے مکروہ کام خوبصورت پردوں میں نہیں چھپاسکتا ۔ یہ اور اس ایسی کئی خبریں روز ہی دیکھنے کو سننے کوملتی ہیں اوریہ ہر دن کی بات ہے،بشیر احمد کے خاندان پران کی شہادت کی خبر قیامت بن کر ٹوٹی ہے۔ مقبوضہ وادی کا شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جو بشیر احمدجیسی خبروں سے خالی ہو اور اس نے بھارتی فورسز کی درندگی کا سامنا نہ کیا ہو۔ کشمیر میں جس بھی گھر کا سربراہ بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنتا ہے، یا جس کا کمسن بیٹا، اسکول بیگ اٹھائے اسکول جاتا ہے تو پیچھے گھروالوں کو یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ کہیں اس کی موت کی خبر نہ آجائے۔ یہ تصویر بھی کشمیر کی ان ہزاروں تصویروں کی طرح ہلادینے والی ہے جنہیں کشمیر کے ظلم سے بھرے البم میں دیکھا جاسکتا ہے۔ بھارت کے زیر انتظام مقبوضہ وادی جموں کشمیر میں قابض فوج کے ظلم کی داستان اتنی طویل ہے کہ ہم اس میں ہزاروں کشمیریوں کی شہادت کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ روز کامعمول ہے ۔ گزشتہ چار پانچ ہفتوں سے اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ روزانہ پانچ چھ کشمیریوں کے خون سے زمین سرخ ہوتی ہے۔ ہر دن کی یہ تعداد تقریبا ایک سو سے اوپر چلی جاتی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد اس تشدد و ظم و ستم میں تیزی اس طور پر بھی آئی ہے کہ آزادی کی وہ تحریکیں جو اپنی منزل کی جانب گامزن تھیں،بھارت نے کشمیر کی آئینی حیثیت مٹا کران کی رفتار کو تیز کیا ہے۔ ظلم کے اس کیلنڈر میں رو ز ہی ایک نئی تصویر چسپاں کر دی جاتی ہے، جسے دیکھ کر کشمیر میں جاری مسلسل بربریت کا چہرہ نظر آتا ہے۔کشمیر کے اس خون بھرے البم میں بے گناہوں کی تصویروں پر کسی میڈیا والوں کی نظر جاتی ہے اور نہ ہی عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی رگوں میں سنسنی دوڑتی ہے۔ کشمیری ہر دن جنازوں کو کاندھا دیتے ہیں۔ اپنوں کی لاشوں پر نوحہ کناں ہوتے ہیں ۔ آزادی کی آواز اٹھانے کی پاداش میں معصوم کشمیریوں کا خون بے دردی سے بہایا جا رہا ہے۔ بھارت کے اس مشن میں کشمیر کے کسی فرد کو استثنیٰ حاصل نہیں ۔ اب ایک اور تصویر دنیا کے سامنے موجود ہے۔ ایک ایسے معصوم بچے کی تصویر جو اپنے دادا کی لاش پر سہما بیٹھا ہے۔یہ تصویر جس میں ایک 3 سالہ بچے کے سامنے اس کے نانا کو گاڑی سے اتار کر گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ یہ تصویر بھارتی ظلم کی ایک نئی مثال پیش کرتی ہے ۔ اس سے پہلے بھی کشمیرمیں جاری قتل و غارت گری کی تصاویر دنیا کے سامنے آچکی ہیں کہ جن میں عورتوں ، بچوں، نوجوانوں کواذیت ناک ظلم کا شکار بنایا جا رہا تھا۔ خواتین کی عصمت دری کی کہانیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔بھارتی فورسز ذہنی طور پر اس قدر پست ہوچکی ہے کہ اسے اب بوڑھوں ، بچوں اور عسکریت پسندوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اس کی آنکھوں میں وہ نظر باقی نہیں رہی کہ جس سے امتیاز کیا جاسکے کہ عسکریت پسند کبھی بچوں کے ساتھ غیر مسلح ہو کر حملہ نہیں کرتے۔ تصویر چیخ چیخ کر بھارت کی عیاریاں بے نقاب کررہی ہے اور اگر دنیا تعصب کی عینک اتار کر دیکھے تو اسے قاتل ومقتول کی تلاش میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ بھارت نے اپنی ظالمانہ ، پُرتشدد کارروائیوں میں چادر اور چار دیواری کا تقدس تو پامال کرنامعمول بنا ہی رکھا تھا، اب چاردیواری سے باہر بھی سرعام بوڑھوں ، بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حتی کہ پچھلے چند روز میں بچوں کو اغوا کر کے شہید کرنے کا اعزاز بھی بھارتی فوج نے اپنے قبضے میں کر لیا ہے۔ مقبوضہ وادی سے آنے والی خبروں کے مطابق بچوں کو اغوا کرکے انہیں جسمانی معذوربنایا جا رہا ہے۔ جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ کشمیری شہریوں کو ذہنی اذیت دینے کا بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ اپنے نانا کے سینے پر بٹھا ننہا عیاد اپنے آنسو سے دنیا کویہ پیغام دے رہا ہے کہ خدار! اب تو مان لیجیے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت ایک حقیقت ہے، کشمیریوں کا بہتا ہوا خون ناحق ایک سچائی ہے۔ ظلم کی داستان جس قدر طویل ہو اتنی ہی قابل مذمت ہوتی چلی جاتی ہے۔ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کو روز کی بات سمجھ کر نظرانداز کرنے کے بجائے، ہر سطح پر آزادی کشمیر کے لئے آواز اور قدم اٹھانے کی اشدضرورت ہے اوراب اس المناک خونی البم کو بند کرنا ہوگا۔