پاکستان کی خودمختاری پر ہمیشہ سوال اٹھتا رہا ہے ،آج سے پہلے قائد اعظم کے سوا ہمیں ایسا کوئی حکمران نہیں ملا جس نے ملکی بالادستی کی قسم کھائی ہو ،اب پہلی مرتبہ ملک کو ایک نیا ٹیسٹ درپیش ہوا ہے تو عمران خان سینہ تان کر کھڑا ہو گیا ہے ،اس نے دنیا کی واحد سپر پاور کو نو کہہ کر قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے ،میں یہ باتیں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ،عمران خان اپنے ایک انٹرویو میں قومی خود داری کا مظاہرہ کر چکے ہیں،اب انہوں نے بجٹ تقریر میں بھی اپنے جذبات کو تفصیل سے بیان کرکے قوم کو سینہ چوڑا کرنے کا موقع دیا ہے۔ان کی تقریر نے قوم کو نیا حوصلہ بخشا ہے او نئے ولولوں سے شاد کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا قائداعظم ہمارے ایک عظیم اور خوددار لیڈر تھے۔ خودداری کا درس ہمیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے دیا ہے۔ جو اللہ کے سامنے جھکتا ہے وہ کسی کے سامنے نہیں جھکتا چاہے وہ رومن امپائر ہو یا پرشین۔ لاالہ الااللہ انسان میں غیرت پیدا کرتا ہے۔ قومی غیرت کے بغیر تاریخ میں آج تک کوئی ملک نہیں اٹھا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب وہ اپوزیشن میں تھے اوراس وقت پاکستان نے امریکہ کا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ جو ذلت اس وقت میں نے محسوس کی وہ کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ ہم نے فرنٹ لائن سٹیٹ بننے کا فیصلہ کیا تھا، اس جنگ سے ہمارا کیا تعلق تھا، القاعدہ اور مسلح طالبان افغانستان میں تھے، ہمارا کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔ جب یہ فیصلے ہو رہے تھے اور اجلاس ہو رہے تھے، اس میں میں بھی شامل رہا، ان اجلاسوں میں بتایا جاتا رہا کہ امریکہ زخمی ریچھ ہے اور ہمیں مدد کرنی چاہیے۔ ۔ ہم نے اس جنگ میں اپنے 70 ہزار لوگوں کی قربانیاں دیں، 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا۔ جنرل ٹومی فرینک نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کمزور ہے، ہم انہیں جو بھی کہیں گے وہ سب کچھ کریں گے۔ پرویز مشرف نے اپنے شہریوں کو گوانتاناموبے بھیجا۔ مشرف نے خود اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر حکومت اپنے شہریوں کی حفاظت نہیں کرے گی تو کون کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ تورابورا آپریشن کے بعد قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے تھوڑے لوگ آئے تھے کیونکہ افغانستان کے ساتھ ہماری سرحدیں کھلی تھیں۔ امریکہ کے کہنے پر ہم نے القاعدہ کے چند سو جنگجوئوں کے پیچھے قبائلی علاقوں میں افواج بھیجیں حالانکہ قبائلی ہمارے اپنے لوگ تھے، ان پر ڈرون حملے کئے گئے، آدھی قبائلی آبادی نے نقل مکانی کی جن کی ابھی تک بحالی نہیں ہوئی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ جب میں ان اقدامات کی مخالفت کرتا تھا تو کچھ لوگ مجھے طالبان خان کہنے لگے اور کہا جاتا تھا کہ یہ طالبان کا حامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین وقت تھا۔ کہیں کسی نے یہ بات سنی ہو کہ آپ کا اتحادی ہی آپ پر بمباری کر رہا ہو۔ وزیراعظم نے کہا کہ لندن میں 30 سالوں سے ہمارا ایک دہشتگرد بیٹھا ہوا ہے، کیا برطانیہ ہمیں ڈرون حملے کی اجازت دے گا؟ اگر وہ اجازت نہیں دے رہے تو ہم نے کیوں اجازت دی تھی، کیا ہم آدھے انسان ہیں، کیا ہماری جانوں کی کوئی قدر نہیں ہے۔ حکومت نے ان حملوں کے بارے میں اپنے عوام سے جھوٹ بولا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سینٹ میں کھلی سماعت کے دوران ایڈمرل مولن سے پوچھا گیا کہ جب پاکستان ڈرون حملوں کی مذمت کر رہا ہے تو آپ ڈرون حملے کیوں کر رہے ہیں، اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کی حکومت کی اجازت سے یہ حملے کر رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اپنے لوگوں سے جھوٹ کیوں بول رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس ساری صورتحال میں دنیا نے نہیں بلکہ ہم نے خود اپنی تذلیل کی۔ دنیا میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ دنیا ہماری عزت کیوں نہیں کر رہی۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب اسامہ بن لادن پر حملہ ہوا تو سمندر پار پاکستانی چھپتے پھر رہے تھے،ان پاکستانیوں نے مجھے بتایا کہ وہ لوگوں کا سامنا نہیں کر سکتے، کیا امریکہ کو ہم پر اتنا بھی اعتماد نہیں تھا کہ وہ ہمیں ٹارگٹ دیتا اور ہم خود کارروائی کرتے۔ ہم دوست تھے یا دشمن، ہماری ساری عزت نفس ختم ہوگئی تھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ مجھ سے یہ پوچھا گیا کہ کیا پاکستان امریکہ کو ہوائی اڈے دے گا تو میرا دل کر رہا تھا کہ میں ان سے یہ سوال پوچھوں کہ پاکستان نے 70 ہزار انسانی جانوں کی قربانی دی، اربوں ڈالر اپنی معیشت کا نقصان اٹھایا، امریکہ نے ہماری کارکردگی کو سراہنے کی بجائے ہمیں برا بھلا اور افغانستان میں ہم پر ڈبل گیم کھیلنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم کسی خوف کی وجہ سے اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
یہ ہوتا ہے کسی مرد حق کا اعلان حق۔قوم کو اس لیڈر کی ہاں میں ہاں ملا کر امریکہ سے صاف کہہ دینا چاہیے۔۔۔۔نو،، نو ،،نو!
امریکہ افغانستان سے ہار کر جا رہا ہے اور ہمیں اس ہاری ہوئی جنگ میںجھونکنا چاہتا ہے۔