بھٹوآج بھی کیوں زندہ ہے؟

Jul 05, 2021

جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید  پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا نام اور ناقابل فراموش کردار ہیں جنہیں کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا وہ انسانی ذہنوں کے گنبد میں ہمیشہ گونجتے رہیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے منتخب حکمران تھے جو ووٹ کی طاقت سے بر سراقتدار آئے تھے جنہیں پانچ جولائی 1977ء پاکستانی تاریخ کے وہ سیاہ دن کو ملک منتخب وزیراعظم کو ان کے عہدے سے ایک ڈکٹیٹر نے اپنی ہوس اقتدار  کے لئے برطرف کر دیا ،پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کر دیا گیا تھا وہ دن اور آج کا دن ملک ترقی خوشحالی اور بین الاقوامی سطح پر اچھے تعلقات سے محروم ہوا ۔ ملک کی جمہوری قوتیں آج بھی جنرل ضیاء  الحق کے اس سیاہ  اقدام کو نہیں بھولیں۔پاکستان کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹے چوالیس برس بیت چکے ہیں۔ پانچ جولائی کا تاریخی دن جب پیپلز پارٹی کے بانی اور پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے عہدے سے برطرف کیا گیا۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء  الحق نے 1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرکے پاکستان کی پہلی منتخب حکومت برطرف کر کے ملک میں مارشل لاء  نافذ کرنے کا اعلان کر دیا  اور عوام کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جیل میں قید کر دیا۔جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ اقدام کے تقریباً دو سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کوپانچ جولائی کو مسلم دنیا کے ایک اہم رہنما کو پابند سلاسل کرنے کے بعد میں انہیں پھانسی دی گئی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ قومی و بین الاقومی سیاسی تجزیہ نگار ذوالفقار علی پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے اور دنیا بھر میں متعارف کرانے اور امیج بڑھانے میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کا مرکزی کردار تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو ہی وہ شخصیت تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے ملک کا آئین تشکیل دیا۔ پانچ جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء  الحق نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء  نافذ کرتے ہوئے نوے دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا جو وفا نہ ہو سکا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان کیلیے خدمات ناقابل فراموش ہیں لیکن ان کا یہ کارنامہ کہ انھوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی بنیاد رکھ کر قوم کو بھارت کے خوف سے آزاد کیا، ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جاتا رہے گا۔ یوں تو 5 جولائی 1977 کو گزرے  چوالیس برس ہو گئے، لیکن اگر حالات کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں 44 سال قبل تھے۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ چہرے تبدیل ہو گئے۔چار دہائیاں قبل سیاسی شخصیات، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو چن چن کر پسِ زنداں کیا جاتا اور ان کی ننگی پیٹھ پر کوڑے برسائے جاتے تھے۔ اظہار رائے پر مکمل پابندی تھی، کھلے عام مارشل لا حکومت پر تنقید کرنا گویا موت کو آواز دینے کے مترداف تھا۔ آج بھی سیاسی شخصیات، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر جھوٹے فرضی مقدمات بنا کر پس زنداں یا پھر جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ جنرل مجید ملک مرحوم اپنی کتاب ’ہم بھی وہاں موجود تھے‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ضیاء الحق نے بھٹو کی قربت حاصل کرنے کے لیے کاسہ لیسی کی ایسی مثالیں قائم کی جو فوجی روایات کے خلاف تھیں۔ ضیاء الحق کو لیفٹیننٹ جنرل بنا کر ملتان کور کی کمان دی گئی تو ایک دن بھٹو نے ملتان وزٹ کرنا تھا۔ ضیاء الحق نے حکم جاری کیا کہ ہماری کور کے تمام آفیسرز سڑک پر لائن میں کھڑے ہو کر بھٹو کا استقبال کریں گے، جس کے بعد ضیاء الحق اور باقی تمام آفیسرز نے سڑک پر کھڑے ہو کر بھٹو کا استقبال کیا، یہ بات فوجی روایات کے بالکل برعکس تھی۔’جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی قربت حاصل کرنے کے لیے جو اقدام اٹھائے، بھٹو جیسا ذہین ترین آدمی بھی دھوکہ کھا گیا۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ضیا الحق شریف، حلیم الطبع اور بے ضرر شخص ہیں۔ فوج کے اندر بھی مضبوط لابی نہیں اس لیے حکومت کے لیے موزوں ترین آرمی چیف ضیاء الحق ہی ہو سکتے ہیں۔تیسری دنیا کے ممالک اور مسلم امہ کے اتحاد کی کوششیںذوالفقار علی بھٹو نے دنیا کے 77 ترقی پذیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور مشترکہ مسائل کو ایک ہی پلیٹ فارم سے حل کرنے کی کوششوں کا انعقاد کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کا نہ صرف انعقاد کیا بلکہ مسلم امہ کے اتحاد کے لیے ایسے گراں قدر فیصلے بھی کرواے جس کے سبب بھٹو مغربی طاقتوں کے لیے ایک خطرہ بن کر ابھرے  اقوام متحدہ میں  جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا  اس کی مثال نہیں ملتی 5 فروری کو یوم کشمیر کے طور پر مختص کرنا اور شملہ معاہدہ بھٹو کے عظیم کارناموں میں سے ایک ہے۔اس کے علاوہ ان کے کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔

مزیدخبریں