چلے ہوئے کارتوس!!!!!

چلے ہوئے کارتوس ایک ایسا جملہ ہے کہ ناکارہ شخص کا خیال ذہن میں آتا ہے۔ ہمیں ایسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے محتاط رویہ ضرور اختیار کرنا چاہیے۔ کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ کم از کم ایسی جملہ بازی کی جائے لیکن کبھی کبھار ایسے حالات ضرور پیدا ہوتے ہیں کہ حوالے کے لیے ایسی باتیں کرنا بھی پڑتی ہیں لیکن جب آپ کسی کو چلا ہوا کارتوس کہیں گے تو لوگ جواب میں آپ کی صلاحیت اور۔ قابلیت پر بھی سوال ضرور اٹھائیں گے۔ اب یہاں یہ بات اس لیے ہو رہی ہے کہ وطن عزیز کے سینئر سیاستدان مولانا فضل الرحمن نے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کے جانے کے دن قریب آرہے ہیں، اس ناجائز حکومت کا خاتمہ کرکے دم لیں گے، یہ چلے ہوئے کارتوس ہیں، چلا ہوا کارتوس دوبارہ بندوق میں نہیں ڈالا جاتا۔ مولانا فضل الرحمن پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم پر سوات میں ہونے والے جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ اپوزیشن اتحاد نے کئی مہینوں کے وقفے کے بعد ایک بار پھر حکومت کے خلاف  مظاہرہ کرتے ہوئے سوات میں جلسہ کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن سینئر سیاستدان ہیں۔ کئی سال تو وہ اسلام آباد سے باہر نہیں نکلے اب وہ دوسروں کو چلا ہوا کارتوس کہہ رہے ہیں۔ وہ خود چلے ہوئے کارتوس ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو ہمارے قارئین ہی کریں گے لیکن مولانا کو مسئلہ یہ ہے کہ اس مرتبہ بندوق میں ان کے بجائے کوئی اور کارتوس ڈال لیا گیا ہے۔ وہ ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ اس جگہ پر صرف ان کا ہی حق ہے۔ کسی اور کو یہ موقع نہیں دیا جا سکتا یا کوئی اور اس رتبے پر نہیں آ سکتا کہ اسے بھی بندوق میں ڈالا جائے۔ بندوق صرف اس وقت تک قابل قبول ہے جب تک اس میں کارتوس مولانا فضل الرحمن کے مشورے یا ان کی مرضی سے ڈالا جائے ورنہ وہ سب کو چلا ہوا کارتوس ہی سمجھیں گے۔ اب اگر مولانا دوسروں کو اس طرح پکاریں گے تو پھر جواب آئے گا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سیاستدانوں بارے ایسی باتیں کرنے سے سیاسی ماحول ہی کشیدہ ہوتا ہے اور اس سے کیا فرق پڑنا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ایک سنجیدہ سیاست دان ہیں الگ بات کہ ان دنوں ذرا پچھلی صفوں میں ہیں تو انہیں سب کچھ برا نظر آ رہا ہے، انہیں ہر کوئی چلا ہوا کارتوس ہی نظر آتا ہے لیکن کیا کبھی انہوں نے غور کیا ہے کہ جب جب یہ کارتوس وہ خود چلاتے رہے ہیں یا دوسروں کو بار بار بندوق تک پہنچاتے رہے ہیں اس وقت انہیں خیال کیوں نہیں آیا کہ چلا ہوا کارتوس دوبارہ بندوق میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ مولانا اچھی طرح واقف ہیں کہ ملک میں نہ تو بندوقوں کی کمی ہے اور نہ ہی کارتوسوں میں کوئی کمی آئی ہے اور جب تک مولانا فضل الرحمن سیاسی میدان میں ہیں ایسے سیاسی دھماکے ہوتے رہیں گے۔ 
چند دن قبل ہی مولانا صحت یاب ہو کر معمول کی زندگی کی طرف واپس لوٹے ہیں شاید وہ سیاسی حالات سے بے خبر ہیں، شاید وہ نہیں جانتے کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت امریکہ کے ساتھ مل کر کیسے ایک مرتبہ پھر وطن عزیز میں امن و امان کی صورتحال خراب کی سازشوں میں مصروف ہے۔  شاید مولانا نہیں جانتے کہ بھارت کیسے جھوٹے ڈرون حملے کروا رہا ہے، گذشتہ روز ہی حکومت پاکستان نے لاہور میں ہونے والے بم دھماکے میں بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کو ملوث قرار دیا ہے۔ چونکہ مولانا بیمار تھے اس لیے وہ ان معاملات سے بیخبر ہوں گے لیکن اب تو وہ سیاسی سرگرمیاں شروع کر چکے اور جان چکے ہوں گے کہ پاکستان کے اردگرد کیا حالات چل رہے ہیں۔ اس لیے انہیں چلے ہوئے کارتوسوں سے آگے بڑھ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت جملے بازی یا سیاسی رنجشوں کو ہوا دینے کا ہرگز نہیں ہے۔ مولانا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے ناخوش ہیں، وہ اسے ہٹانا چاہتے ہیں، وہ حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں یہ ان کا سیاسی، جمہوری حق ہے۔ وہ مسلسل اس عمل کا حصہ ہیں۔ اس سفر میں انہیں گگلیوں کا سامنا رہا ہے لیکن وہ پھر بھی احتجاجی سیاست کر رہے ہیں۔ کوئی انہیں روک نہیں رہا لیکن قومی سلامتی کے معاملات میں تو کم از کم ایسی سیاسی سرگرمیوں کو فوقیت نہیں دینی چاہیے۔ گذشتہ ہفتے سیاسی قیادت کو عسکری قیادت نے اندرونی و بیرونی معاملات پر طویل بریفنگ دی ہے۔ آخر اس کی کوئی وجہ تو ہو گی، پاکستان کو چائلڈ پریوینش فہرست میں شامل کیا گیا ہے، امریکہ اور بھارت قریب آ رہے ہیں، امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے، پاکستان میں امن و امان کو خراب کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ان حالات میں تمام سیاسی کارکنوں کو کم از کم ملکی مفاد میں اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ حکومتی وزراء  کے لیے بھی لازم ہے کہ ملک کے سیاسی حالات کو بہتر کرنے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ الفاظ اور بیانات کی جنگ سے گریز کریں۔ برداشت کا مظاہرہ کریں۔ بلکہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کام کریں۔ مولانا چلے ہوئے کارتوس سنبھال کر رکھیں ہو سکتا ہے کسی وقت کام آئیں لیکن اس وقت سب کو سیاسی اتحاد کے لیے کام کرنا چاہیے۔ دشمن تاک میں ہے اس کا کام آسان کرنے کے بجائے دیوار بننے کے لیے کام کریں۔ امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے مولانا وہاں کے حالات اور لوگوں سے بخوبی واقف ہیں، وہاں کے مسائل بھی جانتے ہیں، پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے یا پاکستان کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے یہ بھی مولانا جانتے ہیں۔ اس لیے قومی سلامتی کی خاطر وہ چلے ہوئے کارتوس جو مولانا سلنے سنبھال رکھے ہیں انہیں دشمن کی طرف اچھالیں۔ پاکستان میں امن ہو گا ملک ترقی کرے گا، مسائل سے نکلے گا تو سیاست کے مواقع بھی میسر آئیں گے اور اسلام آباد کے سفر کا موقع بھی ملے گا۔ مولانا نے جو کرنا ہے اس ملک کے لیے کرنا ہے اب یہ فیصلہ وہ خود کریں کہ ملک کو کس چیز کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...