حکومتی مشکلات کی درپردہ وجوہات 

Jul 05, 2022

وفاقی وزیر داخلہ   کا یہ کہنا خاصا معنی خیز ہے کہ   پی ٹی آئی حکومت کے غلط معاہدے کی وجہ سے آئی ایم ایف نے ہمیں تگنی کا ناچ نچایا ، رانا ثناء اللہ نے پولیس لائنز میں شہدا کے حوالے سے منعقد ہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہہ ڈالا  کہ حکومت پیڑولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے سے بچنا چاہتی تھیں ، مذید یہ کہ  قبل ازوقت  انتخابات کا بھی سوچا گیا مگر اس سے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ تھا ،  "' مسلم لیگ ن کے اہم رہنما دراصل اس حقیقت  پر ایک بار  پھر مہر تصدیق ثبت کرگے  جو اتحادی حکومت کے کم وبیش ہر زمہ دار کی جانب سے تسلسل کے ساتھ  بیان کی جارہی ہے ، مثلا سیاسی جماعتوں میں عوامی رائے کی اہمیت  وافادیت سے انکار کرنا ممکن نہیں ، عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی کوئی بھی حکومت  نہیںچاہے گی کہ اس کے کسی بھی فیصلے عام آدمی میں غم وغصہ کی لہر دوڈ جائے،  چنانچہ  سچ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے عوامی غیض وغصب سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف سے معاہدے کرنے میں  تاخیر کی جس کا نتیجہ عالمی مالیاتی ادارے کی سخت شرائط پوری کرنے کی صورت میں موجودہ حکومت کو  بھگتنا پڑ رہا  ہے ، اب درپیش  حالات میں پی ٹی آئی سے یہ توقع رکھنا مشکل ہے کہ وہ ملک وملت کو مستقبل میں مشکلات سے بچانے کے لیے کسی بھی شکل میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکتی ہے ، ملکی سیاست پر نگاہ رکھنے والا ہر شخص آگاہ ہے کہ عمران خان  اپنی ذات کے حصار سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں ، مثلا  تحریک عدم اعتماد کے نتیجہ میں  جب پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ ہونے جارہا تھا تو ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی  کہ عمران خان اپنی ہی پارٹی میں سے کسی دوسرے  ممبر قومی اسمبلی کو  وزارت عظمی کے لیے امیدوار نامزد کردیں مگر  سابق وزیراعظم نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا ، قابل غور یہ ہے کہ ہمارے ہاں ماضی کے ادوار میں ایسی دو مثالیں دی جاسکتی ہیں جس مٰیں  مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت میں ایک وزیر اعظم کے عہدے  سے محروم ہونے کی صورت میں دوسری شخصیت کو موقعہ دیا گیا تو   آئینی مدت پوری کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی ، اس ضمن میں ایک مثال سید یوسف رضا گیلانی کی ہے جب انھیں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی عدالت نے توھین عدالت کا  مجرم قرار دیتے ہوئے چند منٹوں کی سزا دے کر اقتدار سے رخصت کیا   تو پی پی پی نے  راجہ پرویز اشرف  کو  وزارت عظمی کے منصب دلوانے میںکامیاب رہی ، دوسری مثال میں میاں نوازشریف پانامہ سکینڈل میں عہدے سے محروم ہوئے تو  ن لیگ نے   شاہد خاقان عباسی کو  وزیر اعظم منتخب کروالیا ، یقینا یہ سچ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک میاں نوازشریف کے ہی مرہون منت ہے اس میں بھی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا ووٹر ہر دور میں بھٹو خاندان سے اپنی وفا نبھاتا چلا آرہا ہے ،  اسی معیار پر پاکستان تحریک انصاف بھی پوری اترتی ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بنک  عمران خان کا ہی ہے۔[؎ مطلب یہ کہ کوئی  دوسری شخصیت پارٹی میں  عمران خان کی جگہ نہیں لے سکتی ، سیاسی حقیقت کے طور پر اس کی اہمیت اپنی جگہ مگر پوچھا جاسکتا ہے۔
 کہ اگر میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری اپنی پارٹی میں سے کسی دوسرے رکن اسمبلی کو وزیر اعظم کے لیے سامنے لاسکتے ہیں تو عمران خان کیوں نہیں ، سابق وزیر اعظم کی شخصیت پر نگاہ رکھنے والے بعض حضرات متعرض ہیں کہ  سابق کپتان کبھی بھی  اپنی جگہ کسی دوسرے کو  برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے ،  یوں  تحریک عدم اعتماد کی  کامیابی  کی صورت میں   یہ عمران خان کا ہی  فیصلہ تھا کہ  اگر وہ وزارت عظمی کے منصپ پر فائز نہ رہے تو وہ  اپنی پارٹی کے کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو  قائد ایوان بننے کا موقعہ نہیں دیں گے ، اب  موجودہ سیاسی تناو کو سمجھنے کے لیے بہت لازم ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کا طرز سیاست سمجھا جائے ،  کہا جاتا ہے کہ کسی ادارے  یا فرد کے حال کو سمجھنے کے لیے اس کے ماضی کا مطالعہ ضروری ہے ،  ماضی کو جان کر  اور حال کا تجزیہ کرکے ہی مستقبل بارے پیشنگوئی کی جاسکتی ہے . اگر قومی سیاست بارے مذکورہ اصول پر عمل کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عمران خان  ہرگز  اتحادی حکومت سے تعاون پر آمادہ نہ ہونگے ، سابق وزیر اعظم کی بھرپور کوشش  ہے اور ہوگی کہ وزیر اعظم شبہازشریف اور ان  کی حکومت مشکلات کا شکار رہے تاکہ عوام کی نظروں میں گرایا جاسکے ، درج بالا صورت ہر اس پاکستانی کے لیے تشویش کا باعث ہے جو جمہوریت سے  اپنے مسائل حل کرنے کی امید  لگائے ہوئے ہے ، تسلیم کہ ترقی پذیر ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کی مشکلات فوری طور پر ختم نہیں ہونگی مگر ان میں بجا طور پر کمی ناممکن نہیں  ،  دوآراء نہیں کہ سیاسی محاذآرائی کا نقصان سیاست دانوں سے کہیں زیادہ پاکستان اور اس کے عوام کی مشکلات میں اضافہ کررہا ہے ، بادی النظر میں پی ڈی ایم کی تشکیل کا  بھی ایک مقصد یہی تھا کہ عمران خان کی اپنی ذات کے گرد گھومنے والی سیاست کا توڈ کیا جائے ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہونے چاہے کہ انفرادیت جس قدر اہم ہوجائے بہرکیف اجتماعیت کا مقابلہ بہر حال نہیں کرسکتی ۔

مزیدخبریں