وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کہتے ہیں کہ گذشتہ چھ ماہ میں ایک سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو پنجاب حکومت مفت بجلی فراہم کرے گی۔ ایک سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے بل کا خرچہ اگست سے پنجاب حکومت برداشت کرے گی۔ ضرورت مند افراد کو مفت سولر پینل فراہم کریں گے۔ سستی بجلی فراہم کرنے کے لیے سو ارب ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اس سے نوے لاکھ خاندانوں کو فائدہ ہوگا۔
پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ لائق تحسین ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے زندگی گذارنے کی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونے کے بعد عام آدمی کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت میں بھی اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا لیکن کسی نے توجہ نہیں دی، سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور لگ بھگ پونے چار سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران کمانے والوں نے بہت پیسہ کمایا، حکومت کی امپورٹ ایکسپورٹ کے حوالے سے ناقص پالیسی کا سب سے زیادہ متاثر عام آدمی یا کم آمدن والے افراد ہوئے۔ موجودہ حکومت بھی مہنگائی کو روکنے میں ناکام ہے لیکن خوش آئند چیز یہ ہے کہ ریلیف کے لیے بروقت کام شروع کیا گیا ہے۔ یقیناً اس پیکج سے پنجاب کے وہ گھرانے تو ضرور فائدہ اٹھائیں گے۔ حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری کمزور طبقے کے لیے سہولیات پیدا کرنا ہے، وہ شخص جس کی کمائی بہت کم ہے، اس کے لیے دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہو چکی اس بیچارے کا کیا قصور ہے۔ اس کے لیے تو زندگی صبح اور رات کے کھانے تک ہی محدود ہے۔ ایسے افراد کا خیال رکھنا اور ان کے لیے زندگی کو آسان بنانا اور سب سے بڑھ کر زندگی کو بامقصد بنانا ترجیح ہونی چاہیے۔ ایک سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو ریلیف دینے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ ذرائع آمدن بڑھانے اور زندگی آسان بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرے۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ لیسکو کے صارفین کی مجموعی تعداد اٹھاون لاکھ ہے ایک سو یونٹ والے صارف کو ماہانہ لگ بھگ دو ہزار روپے کا فائدہ ہوگا۔ اس منصوبے پر پنجاب حکومت سالانہ دو ارب چھتیس کروڑ روپے سے زائد ادا کرے گی۔ موجودہ حالات میں یہ ایک اچھا فیصلہ ہے کیونکہ کھانے پینے کی اشیاء جس تیزی سے مہنگی ہو رہی ہیں اس سے زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ کم بجلی استعمال کرنے والوں کو سہولت دینے کے حوالے سے دلچسپ امر یہ ہے کہ بھارتی پنجاب میں اقتدار میں آنے والی عام آدمی پارٹی نے تین سو یونٹ استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو فری بجلی دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور نئی دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال کا یہ انتخابی وعدہ تھا جسے انہوں نے پورا کیا ہے۔
خبر یہ ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ سے متعلق ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ عمران خان نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ نادرا اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار بنائے۔ الیکشن کمیشن اور دیگر کو اوورسیز پاکستانیوں کو دی گئی ووٹ کی سہولت کی فراہمی کا حکم دیا جائے۔ سمندر پار پاکستانیوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ان کے ووٹ کو سیاسی مسئلہ بنایا گیا ہے۔ دراصل ہم ہر ایسے مسئلے کو پہلے سیاسی اور پھر متنازع بناتے ہیں۔ ہم ہر شخص کو پہلے اپنی سیاسی جماعت کا ووٹر اور پاکستانی بعد میں بنانا چاہتے ہیں۔ اسی سوچ کے ساتھ فیصلے ہوتے ہیں اور پھر ہم اپنے بہترین دماغوں سے محروم ہوتے ہیں۔ کیا اوور سیز پاکستانیوں کا ووٹ زیادہ اہم ہے یا ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا زیادہ اہم ہے۔ سابق وزیراعظم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے لیکن ایسے کاموں سے صرف وقت ضائع ہوتا ہے۔ مقصد فوت ہوتا ہے اور ہم اپنے ہی لوگوں میں نفرت پھیلاتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ایک اس مسئلے کو بہت مناسب انداز میں سلجھایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے تحمل دلائل اور درمیانی راستہ اختیار کرنے کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔
نریندرا مودی کی انتہا پسند حکومت نے بین الاقوامی شہرت کی حامل اور پلیٹزر پرائز کا اعزاز رکھنے والی کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثناء ارشاد کو فرانس جانے سے روک دیا ہے۔ثنا ارشاد کئی سال سے بھارت کے غیر قانونی قبضے والے کشمیر میں فوٹو جرنلسٹ کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔ وہ بھارتی فوج کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو کیمرے کی آنکھ سے دنیا کو دکھانے کا ایک ذریعہ ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بھارتی امیگریشن نے ثناء ارشاد کو وجہ بتائے بغیر بلاجواز روکا گیا ہے۔ فوٹو جرنلسٹ ایک کتاب کی تقریب رونمائی اور تصویری نمائش میں حصہ لینے کے لئے فرانس جا رہی تھیں۔ نریندرا مودی کی حکومت نے ثناء ارشاد کو روک کر یہ ثابت کیا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تمام حدیں عبور کر چکا ہے۔ امیگریشن حکام نے کوئی وجہ نہیں بتائی حالانکہ یہ وجہ ہی کافی ہے کہ وہ کمیرے کی آنکھ سے دنیا کو نریندرا مودی کا اصل چہرہ دکھا رہی ہیں۔ آزاد لوگوں کو قید کیا جا رہا ہے، ان کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود دنیا خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ حالانکہ بھارت کے اندر سے بھی نریندرا مودی کی ہندوتوا کی پالیسیوں پر آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ بھارتی ماہرِ اقتصادیات اور نوبل انعام یافتہ "امرتیا سین کہتے ہیں کہ ہندوستان آج جس بھیانک بحران کا سامنا کر رہا ہے وہ ملک کی ممکنہ تباہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں ملک میں کسی قسم کی تفریق نہ ہو ، سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ ملک کی موجودہ صورتحال خوف کا باعث بن گئی ہے۔ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک نہیں ہو سکتا۔" نریندرا مودی کا سب سے بڑا نشانہ مسلمان ہیں اس کے علاوہ دیگر مذاہبِ سے تعلق رکھنے والے بھی نشانے پر ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ نریندرا مودی کی حکومت بھارت کو صرف ہندوؤں کا ملک بنانا چاہتی ہے۔ مسلمان، سکھ یا عیسائی سب پر زندگی تنگ کی جا رہی ہے اور یہ مذہبی دہشت گردی ریاستی سرپرستی میں ہو رہی ہے۔