بھٹو صاحب فرانس کے دورے پر گئے تو صدر اسکارڈ اسٹینگ نے پیرس کے مضافات میں اپنے فارم ہاؤس پر انکے اعزاز میں ایک پرائیویٹ عشائیہ کا انتظام کیا جس میں دونوں سربراہوں کے خاندانوں سمیت چند دوسرے قریبی احباب شریک تھے۔ یہ ورکنگ ڈنر کے بجائے ایک فیملی گیٹ ٹو گیدر تھی جس کا مقصد تفریح اور خاندانوں کے درمیان روابط پیدا کرنا تھا۔کھانے کے بعد اسٹینگ اور بھٹو فارم ہاؤس میں چہل قدمی کیلئے نکلے تو راستے میں جگہ جگہ بتیاں روشن دیکھ کر بھٹو صاحب نے کہا ۔ جناب صدر! آپ کے ملک میں بجلی وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے۔ مضافات میں بھی روشنی ہے۔ صدراسٹینگ نے کہا ہاں ہم پن بجلی کے ساتھ ساتھ ایٹمی بجلی بھی پیدا کر رہے ہیں بجلی وافر ہے لیکن ابھی تک ان مضافات میں بجلی نہیں پہنچا سکے یہاں ایک جنریٹر کی مدد سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ان دنوں جنریٹر عام نہیں تھے۔ بھٹو صاحب نے جنریٹر دیکھنے کا اشتیاق ظاہر کیا ، صدر انہیں لے کر جنریٹر روم میں چلے گئے جو اتفاق سے قریب ہی بنا ہوا تھا ۔بھٹو صاحب نے جنریٹر کو بڑی دلچسپی سے دیکھا اس کی کارکردگی اور انجن کے بارے میں سوالات پوچھے توآپریٹر نے انہیں بریف کیا۔ا س مشین میں بھٹو صاحب کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اسٹینگ نے کہا جناب وزیراعظم ایسا ہی ایک جنریٹر آپ کے ساتھ پاکستان جائے گا جو میری فیملی کی طرف سے آپکی فیملی کیلئے چھوٹا سا تحفہ ہوگا، قبول کیجئے۔ بھٹو مسکرائے، گرمجوشی سے شکریہ ادا کیا اور دھیرے سے بولے ۔ جناب صدر میں ایک غریب ملک کا وزیراعظم ہوں میرے ملک میں بجلی کی بہت کمی ہے ۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے۔. روشنی کی کمی کی وجہ سے بہت سے طالبعلم علم حاصل کرنے سے رہ جاتے ہیں، مریضوں کا بر وقت آپریشن نہ ہونے سے مر جاتے ہیں۔ ٹیوب ویل نہ چلنے سے فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں ایسے میں اگر میرے گھر میں آپ کے دئیے ہوئے تحفے سے روشنی ہوگی تو یہ میرے عوام کے ساتھ سخت زیادتی ہوگی۔صدر اسٹینگ نے چلتے چلتے رک کر حیرت بھری نظروں سے انہیں دیکھا اور فرط عقیدت سے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کانپتی آواز میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔ جنابِ وزیراعظم بتائیں میں آپ کے ملک کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ بھٹو نے دوسرا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھا، گہری نظروں سے انہیں دیکھا اور بولے جنابِ صدر ایک ایٹمی ریکٹر میرے ملک میں لگا دیجئے جو پورے ملک میں بجلی کی کمی کو پوری کر سکے۔ اسٹینگ رکا چند لمحے سوچا اور پھر دھیرے سے بولا۔ جناب وزیراعظم یہ ایٹمی ریکٹر فرانسیسی عوام کی طرف سے پاکستانی عوام کی زندگی میں روشنی لانے کا استعارہ ہو گا۔دوسری صبح جو سب سے پہلا کام ہوا وہ اسی منصوبے کے معاہدے پر دستخط تھے اور یہ ایٹمی بجلی گھر بھٹو نے ایک ذاتی جنریٹر کے بدلے میں لیا تھا جو آج بھی کراچی میں کام کر رہا ہے لیڈر صرف اپنی ذات کیلئے نہیںبلکہ پوری قوم کیلئے سوچتا ہے۔
5 جولائی 1977 ایک آمر جنرل ضیاء الحق نے قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا دیا اور ایڈمنسٹریٹر جنرل بن گیا پاکستان پر ضیاء الحق نے گیارہ سال حکومت کی ۔صوبیدار ریٹائر ر رسول بخش، نسیم بخش مرحوم کی یاداشتوں پر مشتمل ایک کتاب ’’پر دے میں رہنے دو‘‘ 1977 ء کے پہلے اور بعد میں مارشل لاء کے حالات تفصیل سے بیان کیے ہیں ہیںاس خود نوشت کے مطابق 7 اور 10 مارچ 1977 ء کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ہونے والے عام انتخابات سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کے پہلے انتخابات تھے۔ اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کا اقتدار 14 اگست 1978 ء کو ختم ہونا تھا لیکن اس کے چیئرمین اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کم و بیش ایک برس سات ماہ قبل ہی چاروں اسمبلیاں تحلیل کر دی اور جلد ہی 1977 ء کے آغاز میں انہوں نے اعلان کر دیا کہ 7 مارچ 1977 ئکو قومی اسمبلی اور 10 مارچ 1977 ء کو چاروں صوبائی اسمبلیاں کے انتخابات ہونگے۔اس وقت آئین پاکستان میں نگران سیٹ اپ کے بارے میں کوئی شک موجود نہ تھی۔ چنانچہ بھٹو نے نگران وزیراعظم کا منصب اپنے پاس رکھااس الیکشن میں پی پی پی کو ہرانے کیلئے اپوزیشن کی 9 سیاسی جماعتوں نے پاکستان نیشنل الائنس پی این اے کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا اور اس9 جماعتی اتحاد کا سربراہ مفتی محمود کو چنا ۔ اس الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تلوار جبکہ پاکستان نیشنل الائنس کا انتخابی نشان ہل تھا ۔ 7 مارچ 1977ء کے الیکشن سے پہلے ہی 200 نشستوں میں 19 پر پی پی پی بلا مقابلہ کامیاب تھی۔ ان بلا مقابلہ کامیاب ہونے والوں میںذوالقفار علی بھٹو بھی شامل تھے۔ قومی اسمبلی کے بقایا 181 نشستوں پر ہونے والے انتخابات کا اعلان ہوا تھا بھٹو کے خلاف 9 جماعتوں کا اتحاد محض 36 نشستوں پر کامیابی حاصل کر پایا جبکہ بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 155 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، 1 نشست مسلم لیگ قیوم گروپ اور 8 نشست آ زاد امیدوران کے حصے میں آئی۔ اس الیکشن میں ملک قاسم چودھری ، ظہور الٰہی اور مولانا عبد الستار خاں نیازی بھی کامیابی حاصل نہ کر پائے۔ چنانچہ پی این اے کے رہنما وں نے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کے ساتھ ساتھ 10 مارچ 1977 ء کو چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا اس بائیکاٹ کے باعث خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی پی پی پی سے تعلق رکھنے والی تمام خواتین کامیابی ہوگئی۔جن میں بیگم نصرت بھٹو، نسیم سلطانہ، مبارک بیگم،نرگس نسیم،دلشاد بیگم و دیگر خواتین شامل تھیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی ، عدلیہ کی آزادی اور جمہوریت کی بحالی میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔