22فروری 2020 کو ایک انگریزی جریدہ میں میرا یک کالم کے شائع ہوا۔ اُس وقت کی حکومت نے نیب قوانین میں ترامیم کے نام پر تازہ تازہ احتسابی این آر اوجاری کیا تھا جس کے ثمرات ظاہر ہونا ابھی باقی تھے۔ تاہم اس کالم میں تفصیل سے احتسابی این آر او کے سانچے میں ممکنہ طور پر دُھلتی اور فیض یاب ہوتی سیاسی شخصیات اور دیگر سرکاری عہدیداران کی ایک طویل لسٹ پر روشنی ڈالی گئی تھی۔یہ ترامیم بظاہر توبزنس کمیونٹی کو نیب سے ریلیف دلوانے کیلئے سیدھی سادھی سی ترامیم تھیں لیکن درحقیقت طاقتور حلقہِ احباب کو ہی فائدہ ہوتا دکھائی دے رہا تھا اور یہی کالم کا عنوان اور مرکزی موضوع بھی تھا۔ کالم کی اشاعت کے ساتھ ہی متعدد دوست احباب کی طرف سے کافی حوصلہ ِشکن آراء و ردعمل کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ نے نیب کے ڈریکونین لاء اور اسکے مضمرات پر کڑی تنقید کی تو کوئی اپنے کسی عزیز بیوروکریٹ یا بزنس مین کے ساتھ نیب کے مبینہ ناروا سلوک کے جھوٹے سچے دلائل پیش کرتا رہا۔ ہم نے دیکھا کہ 2019 سے 2022 کے درمیان لگ بھگ سو کے قریب ملزمان اس لائن کا حصہ تھے جنہوں نے نیب ترمیمی آرڈی نینس سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے نیب عدالتوں میں درخواستیں دائر کیں اگرچہ ان کیسز میں اربوں روپے کی کرپشن، بدانتظامی، اختیارات کے ناجائز استعمال و دیگر نوعیت کی مبینہ کرپشن کے الزامات تھے۔ وقت نے یہ بھی ثابت کیا کہ متعدد نیب ریفرنسز کو صرف اور صرف اس بنیاد پر عدالتوں سے واپس بھی لوٹایا جانے لگا کہ وہ اب نیب کے دائرہِ اختیار میں ہی نہ رہے تھے۔ اُس دور کا ایک اہم مقدمہ جس میں گیپکو میں 437ملازمین کی مبینہ طور پر میرٹ کے برخلاف تعیناتیوں کا ریفرنس گیپکو انتظامیہ اور متعلقہ وزیرکے خلاف تھااس مقدمہ پر عدالت کی جانب سے دی گئی رولنگ میں واضع لکھا تھا کہ چونکہ نیب ان تمام ملازمین کی بھرتی کے معاملہ میں مالی غبن یعنی رشوت وغیرہ کے عنصر کو ثابت کرنے کے شواہد فراہم نہیں کئے تاہم تمام ملزمان کو نیب ریفرنس سے باعزت بری کر دیا جاتا ہے۔ اس فیصلہ پر تبصرہ عدالتی رٹ کو چیلنج کرنا ہر گز نہیں لیکن عام تاثر تو یہی ابھرتاہے کہ اگر مالی کرپشن ثابت نہ ہو تو کیا انتظامی کرپشن جیسے اختیارات کا ناجائز استعمال وغیرہ کو کرپشن کے طور پرنہیں گردانا جا سکتا اور کیااس پر چھوٹ ہونی چاہیئے ؟یہی اس ترمیمی آرڈی نینس کا مخمصہ تھا۔
سابقہ حکومت نے دوسرا نیب ترمیمی آرڈی نینس 2021 میں پیش کیا جس میں اضافی اصلاحات کے نام پر نیب کے دائرہ کار کو مزید محدود کر دیا گیا جبکہ 2020 میں ہی میرے اس کالم میں ترمیمی آرڈی نینس کے زیر سایہ صاف پانی کمپنی ریفرنس میں ملزمان کی متوقع بریت کا بھی واضع ذکر کیا تھا ۔ ہم نے دیکھا کہ فروری 2022کو اس ریفرنس میں بھی تمام ملزمان فردِجرم عائد ہونے سے قبل ہی بری ہوگئے اور بظاہر فیصلہ میرٹ کو ڈسکس کرتے ہوئے آیا تھا۔
احتساب اور احتسابی اداروں کے ساتھ یہ مذاق کم و بیش ہر سیاسی حکومت کرتی آئی ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ سیاسی سطح پر پہلے اداروں کو اپنے مفاد اور مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بعد ازاں انہی اداروں پر سیاسی معاملات میں مبینہ مداخلت کا الزام بھی دھر دیا جاتا ہے۔ ماضی میں جھانکنے سے آپ کو ایسی بے شمار مثالیں ملیں گی جب احتساب سے متعلقہ اداروں کو سیاسی مخالفین کیخلاف استعمال کیلئے دبائو کا سامنا رہا۔ نیب قوانین میں موجودہ مخلوط حکومت کی حالیہ ترامیم کے بعد نیب چیئرمین کے عہدہ کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ کردیا گیا ہے اس طرح اس تاثر کو بھی مزید تقویت ملی ہے کہ اب سیاست کیلئے احتساب کو اپنی منشاء کے مطابق استعمال کرنے کی راہیں مزید ہموار ہوسکتی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر دور کی اپوزیشن کے خلاف ہی نیب میں مقدمات کی بھرمار کیوں رہتی ہے؟ نیب کے کال اپ نوٹس پر میڈیا میں بریکنگ اور لیڈ بھی لگ جاتی ہیں۔ ایک طریقہ واردات تو یہ بھی رہا ہے کہ خود ہی کسی اپوزیشن رہنما کے خلاف نیب میں درخواست دے کر ازخود میڈیا میں لیک بھی کر دی جاتی۔ اس بات سے اگر کوئی متفق نہ ہو تو وہ گذشتہ تین چار ماہ کے اخباروں کے تراشے اور نیوز بلیٹن کے مواد کا تجزیہ (Content analysis)کر سکتا ہے۔ موجودہ اپوزیشن رہنمائوں کیخلاف آپ کو احتسابی اداروں میں کرپشن کی بے شمار درخواستوں اور کارروائیوں کی خبریں باآسانی مل جائیں گی۔
اس تمام گفتگو کو اگر یکجا کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ایک طرف نیب، ایف آئی اے وغیرہ پر مبینہ سیاسی مداخلت کے توڑاور بزنس کمیونٹی کو ریلیف فراہم کرنے کے نام پر کڑی پابندیاں بھی لگ رہی ہیں تو دوسری طرف ان میں اپوزیشن کیخلاف شکایات کے انبار بھی لگ رہے ہیں۔ کم از کم اعلی ظرفی کی نچلی سطح کا مظاہرہ تو ضرور ہونا چاہیئے کہ یا تو اداروں کو میرٹ پہ کام کرنے دیا جائے یا پھر مقاصد کے حصول کیلئے ہی استعمال کرنا اشد ضروری ہے تو کم از کم اِن کاسرعام استحصال ہی بند کر دیا جائے۔