قارئین !پاکستان سیاسی ،معاشی ،اور سماجی ابتری کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔یقینا پاکستان میں اس موجودہ ماحول کا ذمہ دار موجودہ حکومت یا گذشتہ دورِ حکومت کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہ ایک عالمی لہر تھی جس نے قریباً دنیا کے ہر ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا اور دو سال کی جبر آزما تکلیف کے بعد اب جب کرونا کی شدت میں کمی واقع ہوئی تو اس کے آفٹر شاکس اتنے شدید تھے کہ کئی ممالک معاشی طور پر ڈیفالٹر قرار پا گئے۔پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے پاکستان کے حالات کو پہچانتے ہوئے کرونا کے ڈر سے عوام کو گھر بٹھانے اور معاشی ابتری کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے ایک جوا کھیلا اور جب پوری دنیا کرونا سے دُبک کر گھروں میں مقیم ہو گئی تو پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کا شب و روز متاثر ہوئے بغیر معیشت اپنی ڈگر پر گامزن رہی۔اور کرونا جیسی وبا کی موجودگی کے باعث بھی فیصل آباد اور سیالکوٹ کے انڈسٹریل ایریا میں فیکٹری مالکان کو مطلوبہ لیبر تک ملنا مشکل ہو گئی۔اور یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں بڑے وسائل کے باوجود وہ قدم نہ اٹھا سکیں جسے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک نے یہ ہدف حاصل کر لیا۔اور اس سال کے شروع تک پاکستان کی گروتھ ریٹ 5.8تک پہنچ چکی تھی۔
پنجاب میں دو ڈھائی ماہ سے عجیب صورت حال تھی۔ پاکستان ہی نہیں بیرونِ ملک بھی ہنسائی ہو رہی تھی۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ جس کی سب سے بڑی پارلیمنٹ اس کے اجلاس کبھی ہوٹل میں ہو رہے ہیں، کبھی کسی کنونشن سنٹر میں۔ وزیراعلیٰ تک کا انتخاب ہوٹل میں ہوا۔ دنیا کے سامنے کیا تاثر گیا ہوگا ،ایک اجلاس صوبائی اسمبلی میں دوسرا ایوانِ اقبال میں منعقد ہوا، جس میں صوبے کی اسمبلی کا سب سے بڑا ایونٹ ہوا یعنی بجٹ پیش کیا گیا۔ اور پھر ایک اجلاس میں کرسیاں، ڈنڈے اور لوٹے چلتے رہے۔ ڈپٹی سپیکر نے اپنی چیئر کی بجائے گیلری میں کھڑے ہوئے اجلاس کی صدارت کی۔ اس اجلاس میں ڈپٹی سپیکر دوست مزاری جو 25پی ٹی آئی کے منحرف اراکان کے ساتھ شامل تھے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔پنجاب اسمبلی کا بحران بدترین صورت اختیار کر رہا تھا۔ اپوزیشن حمزہ کی حکومت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھی۔ وزیراعلیٰ حمزہ ان کو اہمیت دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ پی ٹی آئی نے ان کے خلاف کئی درخواستیں دے رکھی تھیں۔ ان میں سے ایک انکے بطور وزیراعلیٰ انتخاب کو کالعدم قرار دلانا تھا۔ اس پر لاہور ہائیکورٹ کے 5رکنی بینچ نے جسٹس صداقت علی کی سربراہی میں فیصلہ دیا ،جس کے مطابق اگلے ایک روز میں وزیراعلیٰ کا انتخاب کے لیے دوبارہ پولنگ کرانے کو کہا گیا۔ اور اس پولنگ کے اگلے روز صبح 11بجے وزیراعلیٰ کی حلف برداری کا حکم دیا گیا۔ اس فیصلے پر تحریک انصاف پریشان جبکہ مسلم لیگ ن بڑی خوش تھی کیونکہ حمزہ شہبازشریف کو مخالفت پارٹی کے ارکان پر عددی برتری حاصل تھی۔ جس روز حمزہ کے انتخاب میں ان کی کامیابی کا یقین تھا اسی روز صبح پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹادیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی اور اسی روز فیصلہ آ گیا جسے فریقین نے تسلیم کیا۔ حمزہ شہباز کے ساتھ بنچ نے پرویز الٰہی کو بھی سنا جو ان کے مقابل وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب 22جولائی کو ہوگا۔اپوزیشن حمزہ کو وزیراعلیٰ برقرار رکھنے پر آمادہ ہو گئی۔ اس پر بڑی لے دے ہو رہی ہے۔ عدالت کی طرف سے کہا گیا پی ٹی آئی دو روز میں دوبارہ الیکشن یا 17جولائی تک حمزہ کو وزیراعلیٰ تسلیم کر لے۔ 17جولائی کو ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ متفقہ ہے اور اس فیصلے سے فریقین نے بھی مکمل اتفاق کیا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے درست کہا کہ جو معاملہ بگاڑ کی جانب جا رہا تھا، تین ماہ میں حالات بدتر ہو رہے تھے ہم نے ایک دن میں فیصلہ کر دیا۔ وہ بالکل درست کہتے ہیں۔ سوال یہ بھی اٹھا ہے کہ آخر ماتحت عدلیہ بر وقت اور ایسے فیصلے کیوں نہیں کرتیں کہ فریقین مطمئن ہوں، وہ اگلی عدالت نہ جائیں۔ معزز جج کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ضمنی الیکشن فری ہوں گے۔ ان پر وزیراعلیٰ اثرانداز نہیں ہوں گے، ہلکے پھلکے انداز میں کی گئی اس تنبیہ کو بہت بڑا پیغام سمجھنا چاہیے۔آخر میں قارئین سے میں اپنے لیے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔ آج جب آپ یہ کالم پڑ ھ رہے ہوں گے میرا کینیڈا میں کڈنی ٹرانسپلانٹ ہو رہا ہے۔ قارئین! یہ ایک میجر سرجری ہے جس کیلئے میں پہلے پاکستان میں کوشاں تھا مگر اس پراسس کو پاکستان میں اتنا مشکل اور ناممکن بنا دیا گیا ہے کہ لاکھوں روپے صرف کرنے کے باوجود بھی آپ کا قانونی طور پر علاج ممکن نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ کڈنی کے مریضوں کو اپنے علاج کیلئے کروڑوں روپے خرچ کرکے پاکستان سے باہر بھارت اور یورپ کا رخ کرنا پڑتا ہے ۔مجھے امید ہے کہ وزارتِ صحت اس سلسلے میں کوئی کارآمد ضابطہ اخلاق یا قانون میں موجود سقم کو دور کریگی۔ادارہ ’’نوائے وقت‘‘کے ملازمین اور قارئین میرے کامیاب کڈنی ٹرانسپلانٹ کیلئے بھرپور دعا کریں ۔
قارئین سے دعائے صحت کی اپیل
Jul 05, 2022