جگر گوشہ مہرعلی حضرت پیر سیّد شاہ عبد الحق گیلانی

 اکبرمنہاس گولڑوی
حضرت پیر سیّد شاہ عبدالحق گیلانی آستانہ عالیہ گولڑ وشریف یوں تو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں کیوں کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی پہچان اپنی مخلوق کی زبان سے کروانے کا وعدہ ان الفاظ میں کر رکھا ہے۔
فاذکرونی اذکرکم. (القرآن)
 ترجمہ:۔ تم میرا ذکر کرو(میری یاد میں رہو ) میں تمہارا چرچا کروں گا۔ حضور پیر سیّد شاہ عبدالحق گیلانی کی زندگی چونکہ ایک صدی پر محیط ہے۔ لہذا آپ کی زندگی کے مختلف پہلووں پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی جارہی ہے۔ آپ 16 اپریل 1926 بروز جمعہ المبارک بمطابق3 شوال المکرم 4431  ہجری کو گولڑہ شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ حضرت پیر سیّد مہرعلی شاہ گیلانی کے پوتے اور حضرت پیر سیّد غلام محی الدین گیلانی المعروف بابوجی لجپال کے فرزند تھے۔ ان کی بے مثال تربیت نے آپ کی شخصیت کو چار چاند لگادیے۔ خالصتاً مذہبی گھرانے اور نبی کریمؐ کی اولاد ہونے کے ناطے اس شخصیت با کمال کی اس تربیت سے بھر پور طور پرفیض یاب ہوئے اوراپنی زیست کے سفر کا آغاز کیا۔ علمی طور پر مختلف امور طے کرنے کے ساتھ ساتھ روحانی فیوض و برکات قبلہ عالم پیرسیّد مہرعلی شاہ گیلانی سے حاصل ہوا۔
ابتدائی تعلیم القرآن و فارسی حضرت مولانا قاری محمد پشاوری ؒجواس وقت مدرسہ گولڑہ شریف کے خطیب، مدرس ومفتی تھے، سے حاصل کی۔بعداز یں آپ کے والد گرامی بابوجی نے آپ کومزید دینی تعلیم کے لیے جامعہ عباسیہ بہاولپور جو کہ اس وقت برصغیر پاک و ہند کی ایک بڑی دینی درسگاہ تھی وہاں بھیج دیا۔ آپ کی خوش نصیبی کا یہ عالم کہ آپ کو مولانا غلام گھوٹوی جیسے جیدِ عالم دین سے دینی تعلیم مکمل کرنے کا موقع میسر آیا۔ تربیت کے حوالے سے حضورسیّد پیر مہرعلی شاہ گیلانی والد گرامی حضور باؤ جی کی شب وروزمحنت کا اثرآپ کی ذات میں نمایاں رہا۔ 1974 میں والد گرامی بابوجی کے وصال کے بعدآپ نے 29 جولائی 2020 تک 46 برس مسندارشاد پر رہ کرمخلوق خدا کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ آپ انتہائی حلیم طبیعت کے مالک تھے اور آپ کی شخصیت انتہائی جاذبِ نظر تھی۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو روشن اور نمایاں ہے۔ خانقاہی نظام کی باریکیوں کو خوب سمجھتے تھے اور تصوف کے حقیقی داعی تھے اور اس خوبصورت راستے کا انتخاب کیا جو دراصل صراط مستقیم ہے اور اپنے اسلاف کی پیروی کرتے ہوئے اس مشن کو جاری رکھا۔ آپ کے اندر حُبِّ الہٰی اور عشقِ رسولؐ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ کا حُسنِ اخلاق ایسا تھا کہ جو بھی آپ سے ملتا آپ کا گرویدہ ہوکر رہ جاتا اور دوبارہ ملنے کی خواہش رکھتا۔
 آپ کی شخصیت  میںشروع ہی سے رنگ مہر علی کی جھلک نظر آتی تھی،آپ ان کے اوصاف حمیدہ کے خزانوں کو سمیٹے ہوئے تھے۔ دکھی انسانوں کی خدمت آپ کی زندگی کا اہم مقصد تھا۔ اپنے والد گرامی حضور قبلہ بابوجی کی دی گئی بنیادی تعلیم وتربیت کے اہم نکات آپ کے ہمیشہ پیش نظر ر ہے۔ مریدین کو ہمیشہ صراط مستقیم پر رہنے کے لیے توجہ فرماتے اور نماز پنجگانہ کی ادائیگی کاحکم فرماتے اور کثرت درود کا وردکرنے کاحکم دیتے۔ آپ کی شخصیت با کمال نبی کریمؐ کے اسوہِ حسنہ پرعمل کی عکاس ہے اخلاق بے مثال مہمانداری دیکھیں تو ہر طرح سے ہر خاص و عام کا خیال رکھنا۔ محبت وشفقت کو دیکھیں تو معدن محبت ، علم کو دیکھیں تو آپ کی ذات علم کا وہ خاموش سمندر جو طلاطم خیز موجوں کو اپنے کشادہ سینے میں سمائے رواں دواں ہے۔ آپ نے ہمیشہ علم باعمل کو پسند فرمایا یعنی کہ عمل کے بغیرعلم کی کوئی اہمیت نہ ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں بلند و بے پایاں علمائے دین آپ سے رہنمائی حاصل کرنے لے لیے آپ کی خدمت میں حاضری دیتے اور تسکین پاتے۔
لالہ جی حضور کا 46 سالہ سجادہ نشینی کا دور گولڑہ شریف کی تاریخ میں ایک سنہری باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ ؒہی کے دور میں خانقاہ میںبرائے مہمان گاری، مہمان خانوں کی وسعت دی گئی۔ لنگر کا وسیع پیمانے پر اہتمام بھی آپ کی خصوصی توجہ سے مرہون منت ہے۔
متعلقین،متوسلین وعقیدتمندوں کی روحانی پاکیزگی کے لیے روزانہ محفل سماع کو جاری رکھا۔ جس کے ساتھ ساتھ سالا نہ اعراس ودیگر محافل بسلسلہ نو یں محرم دسویں محرم شہادت امام عالی مقامؑ بھی منعقد کرواتے۔ آپ کی شخصیت کا اہم ترین پہلوحق پر قائم رہنا ہے اورصبر کرنا تھا۔ مشکل سے مشکل مقام پر بھی صبر کی تلقین فرماتے۔ تمام عمر یادِ الٰہی ومحبوب ؐ کی محبت میں رہتے لالہ جی حضور نے لاکھوں افراد روحانی فیض عطا فرمایا۔ حضوراعلیٰ پیر سیّد مہرعلی شاہ گیلانی کی باکمال شخصیت کاعکس نمایاں طور پر پیرسیّد شاہ عبدالحق گیلانی کی ذات پاک میں بآسانی دیکھااور محسوس کیا جاسکتا ہے اور یہ نگاہ مہر کی مرمون منت رہا۔ بیماری کے دور میں بھی آپ نے مخلوق خدا سے دوری اختیار نہ کی اور زندگی کی آخری شام تک زائرین آپ کا دیدار کرتے رہے۔ آپ نے 94 سال 4 ماہ عمر پائی۔ اس صدی میں دیکھا جا ئے تو آپ اسلاف کی نشانیوں میںسے ایک نشانی ہیں۔ آپ کو بہار گولڑہ شریف کے لقب سے بھی یاد کیا جا تا ہے جس کی بنیادی وجہ مخلوق خدا کے سروں پر آپ کا دست شفقت رکھنا ہے۔29 جولائی 2020 آپ کی زندگی کی شب تمام تھی۔ آپ نے 8 ذی الحجہ 1441 ہجری بمطابق 30 جولائی 2020 صبح صادق جہاں فانی کو خیر آباد کہا۔ 8 ذی الحجہ 1441 ہجری کو بوقت عصر جنازہ تھا جو کہ سعودی عرب میں یوم العرفہ تھا۔ ملک کے طول وعرض سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے جنازے میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے فرزند اکبر جانشین حضرت پیر سیّد معین الحق شاہ گیلانی نے پڑھائی۔ آپ کا سالانہ عرس مبارک7,8ذی الحجہ کو گولڑہ شریف میں منعقد ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
علامہ نزاکت حسین گولڑوی
 حضرت قبلہ سید پیر مہر علی شاہ گیلانی کا شجرۂ نسب والد اور والدہ کی طرف سے 25 واسطوں سے حضرت غوث پاک اور 36 واسطوں سے حضرت امام حسن مجتبیٰ ؓسے جا ملتا ہے ۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں ۔ آپ کے فرزند یگانہ صاحبزادے جس کا نام پیر سید غلام محی الدین گیلانی المعروف بابو جی کے دو فرزند ارجمند تھے بڑے پیر سید غلام معین الدین المعروف بڑے لالہ جی اور چھوٹے پیر سید شاہ عبدالحق گیلانی المعروف چھوٹے لالہ جی ان دونوں صاحبزادوں کی پرورش غوث زماں قطبِ دوراں پیر سید مہر علی شاہ نے خود فرمائی ۔  آپ کو کسی بھی وقت جادہ مستقیم سے ہٹنے پھسلنے نہ دیا بلکہ منازل عشق و فقر نہایت بچپن سے ہی طے کرنا شروع کر دیں۔اپنے دستِ حق پرست پر بیعت کیا اور ابتدائی تعلیم اپنی نگرانی میں دلائی۔ بڑے لالہ جی رحمتہ اللہ کی تاریخ پیدائش 1920 اور شاہ عبدالحق کی تاریخ پیدائش 1926ہے۔ خاندان کی روایت کے مطابق دادا نے اپنے پوتے کی تربیت  فرمائی، یہ تربیتی طریقہ اہل بیعت سے مروج چلا آرہا ہے۔ پیرسید مہر علی شاہ نے اپنے بیٹے اور دو پوتوں کو فرمایا تھا کہ بیعت کرنے کا وہ حقدار ہے جو عیان ثابتہ کی نظر رکھتا ہو۔ جو مرید کے ماضی حال مستقل کو جاننے کی طاقت رکھتا ہو تب بیعت کرنے کا بارِ گراں اپنے کندھوں پر اٹھائے اس صورت میں جب عقل حلال اور صدق مقال کی شان رکھتا ہو۔ حضرت بابوجی  ان دونوں صاحبزادوں کو فرماتے تھے کہ اپنی خودی مٹا کر جینا اللہ تعالیٰ تمہیں بڑی برکتیں عطاء فرمائے گا۔ پھر آپ یہ شعر پڑھتے۔
طریقت بجز خدمت خلق نیست   بہ تسبیح و سجادہ او دلق نیست 
یہ ہی اس خاندان کی اعلیٰ تربیت رہی ۔ آپ نے ایک بار نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا بیٹا غلام محی الدین کو محی الدین کے حوالے کیا۔ اور بڑے پوتے غلام معین الدین کو خواجہ معین الدین کے حوالے کیا اور پھر خاموش ہو گئے۔کسی نے عرض کیا کہ چھوٹا پوتا شاہ عبدالحق کے بارے کیا فرماتے ہیں۔ آپ نے فرمایا شاہ عبدالحق اور میں اللہ کے حوالے۔یہ اشارۃًاعلیٰ ترین ولایت کے مقام کی نشاندہی تھی۔آپ فرماتے ہیں کہ ایسا وقت آئے گا کہ خانقاہی نظام کو استوار رکھنے اور سلاسل کا نام روشن رکھنے کا کام شاہ عبدالحق سرانجام دیں گے۔ دونوں لالہ جی صاحبان  ایک ساتھ رہتے تھے۔ دونوں نے پہلا علمی استفادہ اپنے داد سے کیا اور پھر مولانا محمد غازی صاحب سے اور 1938میں بہاولپور جامع عباسیہ میں شیخ الجامع محدث وقت علامہ غلام محمد گھوٹوی کے پاس بھیجا گیا، جو کہ قبلہ پیر مہر علی شاہ کے مرید اور شاگرد خاص تھے۔جہاںانہوںنے 1944تک حصول علم کے لئے جامع میں قیام فرمایا۔ 
 آپ نے اپنے دادا مجدد وقت پیر سید مہر علی شاہ کی تصانیف و سلسلہ طریقت و سلسلہ درگاہی نظام کو اُجاگر کیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا تو قادیانیوں نے وفاقی شرعی عدالت ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپنے دفاع کے مقدمے لڑے۔ اس وقت قبلہ شاہ عبدالحق گیلانی اور پیر غلام محی الدین گیلانی نے قادیانیوں کا تعاقب کرکے ان کو اقلیت قرار دلوایا۔ ملک کے تمام حکمران صدر  جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اورجنرل پرویز مشرف سمیت سب  آپ کی زیارت کیلئے حاضر ہوتے رہے۔سیاستدانوں میںبے نظیر بھٹو اور دیگر بڑے بڑے ارباب اقتدار حاضری کا شرف حاصل کرتے رہے۔ 1992ء میں نواز شریف کے والدین نے حضور کے روضہ کے قریب کھڑے ہو کر منت مانی۔ آبروئے صحافت ڈاکٹر مجید نظامی ایڈیٹر انچیف روزنامہ نوائے وقت گروپ سے بہت محبت فرماتے تھے اور مجید نظامی بھی بے حد ادب اور عقیدت رکھتے تھے۔ 
2 اکتوبر 2003 شعبان کی11تاریخ کو 490 افراد کے ہمراہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کی خاطر سعودی عرب تشریف لے گئے ۔ راقم الحروف پر بھی کرم فرمایا، میں نے اپنی آنکھوں سے اہل عرب کی جید شخصیا ت کو آپ کا احترام و اکرام کرتے دیکھا۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے 1995ء میں حمید نظامی ہال جو کہ لیڈر لیکچر سیریز کے لئے تیا رکروایا اس کے افتتاح سے پہلے فرمایا کہ اس کا آغاز کسی مقدس ہستی کے نام سے کیا جائے۔ چنانچہ میں نے اور سید افتخار علی شاہ مرحوم نے مشورہ دیا کہ ختم نبوت میں پیر مہر علی شاہ کے اعلیٰ کردار کو بیان کرنے سے آغاز کیا جائے۔چنانچہ نظامی صاحب نے مجھے حکم دیا کہ شاہ عبدالحق کی اجازت ضروری ہے۔ تو بندہ ناچیز نے گولڑہ شریف جا کر آپ سے اجازت لی۔ آپ نے مجید نظامی کو بے حد دعائیں دیں۔ میں نے نظامی صاحب کو آپ کے جذبات سے آگاہ کیا وہ بہت خوش ہوئے۔ اور کہا کہ پاکستان پیر مہرعلی شاہ کی دعا سے معرض وجود میںآیا اور اب پیر سید شاہ عبدالحق کی دعائوں اور دم قدم سے آباد رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن