استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین نے وطن واپسی کے بعد ملک بھر میں سیاسی رابطے تیز کر دئیے ہیں۔ بتایا جاتا ہے جہانگیر ترین کی بھرپور سیاسی سرگرمیوں کے بعد پنجاب میں بڑی سیاسی ہلچل کی امید ہے۔ یار لوگ بتاتے ہیں کہ دو تین درجن سیاسی لوگ استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں۔ آئندہ چند روز میں استحکام پاکستان پارٹی کی اعلی قیادت ملک کے مختلف شہروں میں اہم ملاقاتیں کر رہی ہے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان نے خیبرپختونخواہ پر بھی نظریں جما رکھی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کی اہم سیاسی شخصیات کو بھی ساتھ ملایا جائے۔ ملاقاتوں کے اس سلسلے میں استحکام پاکستان پارٹی کی قیادت نے ممبرسازی مہم کابھی فیصلہ کیا ہے۔ رکنیت سازی مہم درحقیقت استحکام پاکستان پارٹی کا پہلا امتحان ہو گا۔ رکنیت سازی سے ہی عوامی رجحان کا اندازہ ہو گا۔ گوکہ استحکام پاکستان پارٹی کی اعلی قیادت میں ایسے لوگ شامل ہیں جو تعمیری حوالے سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ وہ مختلف شعبوں میں کامیابیوں کے جھنڈے بھی گاڑ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اخبارات، ٹیلیویژن اور ڈیجیٹل میڈیا میں بہت مقبول ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سے الگ ہونے کے بعد یہ سب لوگ ووٹرز کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ رکنیت سازی میں کامیابی ملتی ہے تو اس سے آئی پی پی قیادت کے جوش و جذبے میں اضافہ ضرور ہو گا۔ استحکام پاکستان پارٹی کو رکنیت سازی سے پہلے پارٹی منشور کو عوام تک پہنچانا چاہیے۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ منشور کو درست انداز میں عوام تک نہیں پہنچاتیں پاکستان کے ووٹرز کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں منشور سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ ووٹرز چہروں کو دیکھ کر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ جب تک پاکستان میں ووٹرز کا یہ رویہ نہیں بدلے گا اس وقت تک حقیقی جمہوریت کے خواب کو تعبیر نہیں مل سکتی۔ ووٹرز کے پاس سیاسی جماعتوں کے منشور پڑھنے اور اس بارے غور و فکر کی کوئی روایت ہی نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی معصوم اور سادہ لوح ووٹرز کی کم علمی اور ناپختہ سیاسی سوچ سے فائدہ اٹھاتی رہتی ہیں۔ ووٹرز کی تربیت بلدیاتی سطح سے ہوتی ہے اور سیاست دانوں کی بنیادی تربیت کا بھی سب سے بہتر ذریعہ یہی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں تو وراثتی سیاست نے ایسے پنجے گاڑے ہیں کہ بڑے بڑے سیاسی خاندانوں کے چشم و چراغ براہ راست قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی اور براہ راست وفاقی یا صوبائی وزارت تک جا پہنچتے ہیں۔ جو کام انہیں کونسلر، یو سی ناظم، ٹاون ناظم یا ضلع ناظم بن کر سیکھنا چاہیے وہ یہ کام وفاقی یا صوبائی وزیر بن کر سیکھتے ہیں۔ یوں ان کی غلطیوں کا نقصان پاکستان کے لوگوں کو صوبے یا مرکز کی سطح پر اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ سب بھی اس لیے ہو رہا ہے کہ ووٹرز سیاسی لحاظ سے اتنے باشعور نہیں ہیں اور سیاسی جماعتیں اپنے ووٹرز کو باشعور نہیں دیکھنا چاہتیں۔ ووٹرز کے باشعور ہونے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی سیاسی جماعتیں ہیں۔
استحکام پاکستان پارٹی کو اپنے نام کی لاج رکھنی ہے۔ پاکستان میں استحکام کے لیے سیاسی طور پر باشعور ہونا بھی ضروری ہے۔ ملک کی اس سے بڑی خدمت نہیں ہو سکتی کہ آپ لوگوں کو سیاسی طور پر باشعور کریں۔ عمران خان جسے شعور کہتے ہیں وہ سیاسی نفرت ہے، شدت پسندی اور بدتہذیبی و بدتمیزی ہے۔ شعور آپکو سوچنے سمجھنے اور دلیل سے قائل کرنے کے سفر پر لے کر جاتا ہے، باشعور آگ بجھانے کی ترغیب دیتا ہے، باشعور جلاﺅ گھیراو¿ کے بجائے تعمیری کاموں کو ترجیح دیتا ہے، سیاسی طور پر باشعور شخص تحمل مزاجی اور برداشت کی روایات کو فروغ دیتا ہے جب کہ سیاسی طور پر نفرت پھیلانے والوں کی سب سے بڑی نشانی نو مئی کے دلخراش واقعات ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کو ان خطوط پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے لوگوں کے مزاج میں استحکام کی ضرورت ہے۔ سیاسی طور پر باشعور شخص چہرہ نہیں منشور پڑھتا ہے۔ چونکہ استحکام پاکستان پارٹی تجربہ کار اور کامیاب سیاست دانوں پر مشتمل ہے۔ صنعت و تجارت میں بھی کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں انہیں چاہیے کہ ہر سطح پر ہر طرح کے استحکام کو ہدف بنا کر آگے بڑھیں۔ اپنے منشور کوگھر گھر پہنچائیں ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے منشور کی بنیاد پر گفتگو کریں۔ سیاسی منشور کا موازنہ عوام تک پہنچائیں۔ ملک مسلسل جمہوری عمل سے گذر رہا ہے ووٹرز کو بھی اب اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے ۔ جس طرح سیاست دان اپنی ناکامیوں کا ملبہ طاقت ور حلقوں پر ڈالتے ہیں اسی طرح مسائل میں الجھے ووٹرز کو بھی اپنی ناکامی کا ملبہ سیاست دانوں ڈالنے کے بجائے خود احتسابی کے عمل سے گذرنا ہو گا ۔ جب آپ پڑھے لکھے اور سوچے سمجھے بغیر ووٹ کاسٹ کریں گے یا شخصیت پرستی میں گھرے رہیں گے اس وقت تک حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔
استحکام پاکستان پارٹی کے پاس الیکٹیبلز ہیں انہیں بھی چاہیے کہ وہ اپنے حلقوں میں لوگوں کے ساتھ بات چیت کریں اور اپنے منصوبے ووٹرز کے سامنے رکھیں۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی لکھتے ہیں کہ صرف پنجاب کی جیلوں میں 52289
مردوں،944 خواتین ، ( 133 معصوم بچوں کے ہمراہ)703 نوعمر لڑکوں سمیت 53936 قیدیوں کی بڑی تعداد فیصلوں کی منتظر پڑی ہے، صرف سپریم کورٹ میں 52450 مقدمات زیر التوا ہیں اور عدالتیں تنخواہوں میں 20 فی صد اضافے کی خبر کے ساتھ ہی تین ماہ کی رخصت پر چلی گئی ہیں۔ صدیقی صاحب نے ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ اعدادوشمار عوام کے سامنے رکھے ہیں اور اس کا ایک مقصد شاید لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ عدلیہ کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔ صدیقی صاحب ان اعدادوشمار کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ یہاں مسئلہ صرف عدلیہ کا نہیں ہے ہر دوسرا ادارہ ایک سے بڑھ کر ایک تباہی کے راستے پر ہے۔ جیلوں میں قید افراد اور زیر التوا مقدمات کی تعداد تشویشناک تو ہے لیکن اس سے بھی تکلیف دہ بات مختلف جرائم میں جیل جانے والوں کی ہے۔ چند ہفتے گذرے ہیں شاید رمضان المبارک میں ایک مرتبہ جمعہ کے خطبہ میں نعیم بٹ صاحب نے بتایا کہ وہ کیمپ جیل کا دورہ کر کے آئے ہیں۔ روزے تھے لیکن احترام رمضان جیل میں نظر نہیں آیا انہوں نے بتایا کہ تیرہ تیرہ چودہ چودہ سال کے بچے قتل کر کے جیل پہنچے ہوئے ہیں۔ بہت مشکل سے قیدیوں کو دین کی بات سننے کے لیے قائل کیا لیکن جن جرائم میں نوجوان جیلوں میں پہنچے ہوئے ہیں وہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی۔
سینیٹر عرفان صدیقی صاحب نے عدالتوں کی کارکردگی تو بتائی ہے بہت اچھا کیا لیکن کیا حکومتیں نوجوانوں کو جرائم سے بچانے اور صحت مند زندگی گذارنے کے مواقع فراہم کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ ذرا کرائم شوز دیکھیں اخلاقی طور پر ہم کہاں کھڑے ہیں۔ تباہی تو بہت چھوٹا لفظ ہے۔ کاش حکمرانوں کو اس کا احساس ہو کہ ہم نے مستقبل کے معماروں کو کیسے سنبھالنا ہے۔ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات ایک مسئلہ ضرور ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ بھی ہے کہ جرم کیوں ہو رہا ہے ۔ اللہ میرے ملک پر رحم کرے اور اسے تاقیامت قائم و دائم رکھے۔
آخر میں محسن نقوی کا کلام
کچھ ذکر کرو ا±س موسم کا جب رم جھم رات رسیلی تھی
جب ص±بح کا ر±وپ ر±و پہلا تھا جب شام بہت شرمیلی تھی
جب پھول مہکتی راہوں پر قدموں سے گجر بج ا±ٹھتے تھے
جب تن میں سانس کے سرگم کی ہر دیپک تان س±ریلی تھی
جب خواب سراب جزیروں میں خوش فہم نظر گھ±ل جاتی تھی
جب پیار پوَن کے جھونکوں سے ہر یاد کی موج تشیلی تھی
اَمرت کی مہک تھی باتوں میں نفرت کے شرر تھے پلکوں پر
وہ ہونٹ نہایت میٹھے تھے وہ آنکھ بہت زہریلی تھی
محسن ا±س شہر میں مرنے کو اَب اس کے سوا کچھ یاد نہیں
کچھ زہر تھا شہر کے پانی میں کچھ خاک کی رنگت نیلی تھی
استحکام پاکستان پارٹی کا مستقبل، عرفان صدیقی کا ٹویٹ اور نعیم بٹ کا مشاہدہ!!!!!
Jul 05, 2023