افواہوں کے بازار میں خاکستر ہوتی امیدیں

”حالاتِ حاضرہ“ پر تبصرہ آرائی سے بخدا جند چھڑانا مجھے تو ناممکن محسوس ہورہا ہے۔ عید کی تعطیلات کے فوراََ بعدچھپے کالم میں آپ کو چند کتابوں سے رجوع کرنے کے بارے میں اپنی کاوش سے آگاہ کیا تھا۔ جس کتاب کو تقریباََ 30سال کے طویل وقفے کے بعد غور سے پڑھا وہ فرانز فینن کی لکھی ایک کتاب تھی۔فینن بنیادی طورپر ایک نفسیات دان تھا۔ تعلق اس کا افریقہ سے تھا اور وہ اپنے خطے میں فرانس کے غلام بنائے ممالک سے جذباتی وابستگی کا حامل تھا۔ تعلیم مکمل کرلینے کے بعد نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا بے شمار مریضوں کا علاج کرتے ہوئے فینن نے دریافت کیا کہ افریقہ پر طاقت ور غیر ملکی قوتوں کے جارحانہ حملوں نے جن کی ابتدا غلاموں کی تجارت سے ہوئی تھی وہاں بسی اقوام کی اکثریت کو ”نارمل“ رہنے نہیں دیا۔ جنونی غصہ ان کی جبلت بن چکا ہے۔وہ اسے طاقت ور غیر ملکی آقاﺅں کے خلاف استعمال نہ کر پائیں تو بیوی اور بچوں پر نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ تنہا زندگی بسر کرنے والے نوجوان طبیعت میں نسلوں سے جمع ہوئے غصے کو اپنی ہی شخصیت کی تباہی کی جانب موڑ دیتے ہیں۔
سامراج کے غلام ہوئے ممالک میں تاہم فینن کی تحقیق ومشاہدے کے مطابق نام نہاد ”پڑھے لکھے متوسط طبقے“ کا ایک مخصوص گروہ بھی نمودار ہوتا ہے۔وہ غیر ملکی آقاﺅں کی سرپرستی میں خود کو ”تعلیم یافتہ اور مہذب“ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں ایک ایسی نسل پروان چڑھتی ہے جو آدھا تیتر -آدھا بٹیر“ نما رویے کی حامل ہوتی ہے۔ اس کے نفسیاتی مسائل بھی ظلمتوں کے مارے افراد سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا علاج کرتے ہوئے اس نے جو تفصیلات جمع کیں انہیں ایک کتاب کی صورت مرتب کردیا۔ کتاب کا نام تھا:Black Skin, White Masksیعنی سفید خول والی سیاہ جلد۔
اپنے تجربات سے دل برداشتہ ہوکر فینن افریقہ میں سامراج دشمن تحریکوں میں سرگرم ہوگیا۔ الجزائر کی جنگ آزادی سے اس نے بہت امیدیں باندھیں اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے اس نے ایک اور شہرئہ آفاق کتاب لکھی ہے جسے The Wretched of the Earthکا عنوان دیا۔ 1970کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی لاہور میں ”نگارشات“ کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم ہوا تھا۔ہمارے شہر کے ایک مقبول سیاستدان میاں افتخار الدین بھی تھے۔انہوں نے امروز اور پاکستان ٹائمز جیسے صحافتی اداروں کے ذریعے ہمارے شعبے میں بے تحاشہ نئے رحجانات متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کے ایک فرزند اس ادارے کے سرپرست تھے۔ ان کی سرپرستی میں فینن کی کتاب کا ترجمہ ہوا۔ پروفیسر سجاد باقر رضوی صاحب کے ہاتھوں ہوا یہ ترجمہ اپنی جگہ ایک شہ پارہ تھا۔ ”افتادگان خاک“ کا چونکادینے والا عنوان بھی انہوں نے فینن کی لکھی کتاب کے اردو ترجمے کو دیا تھا۔
فینن ،فرانس اور افریقہ کی تاریخ سے رجوع کرنے کو مجھے ان فسادات نے مجبور کیا جو حال ہی میں ایک افریقی نسل مگر فرانسیسی شہریت کے حامل مسلمان نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کی وجہ سے پھوٹ پڑے تھے۔ نظر بظاہر 18سال سے چند ہی ماہ چھوٹے ایک نوجوان کو پولیس نے پیرس کی ایک سڑک پر ”شناخت“ جاننے کے لئے روکنے کی کوشش کی تھی۔ غالباََ گھبراکر اس نوجوان نے رکنے کے بجائے گاڑی کی رفتار تیز کردی اور پولیس نے گولی چلاکر اسے مارڈالا۔ اس کی ہلاکت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ پیرس کے علاوہ فرانس کے دیگر کئی شہروں میں بھی لوٹ مار اور گھیراﺅ جلاﺅ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ حکومت فرانس یہ طے ہی نہ کر پائی کہ فسادات پر جلد از جلد کس انداز میں قابو پائے۔
میرا ارادہ تھا کہ فرانس کی ”سامراجی دنوں“ کی تاریخ کے تناظر میں ان دنوں اس ملک میں شمالی افریقہ کے ممالک سے آکر آباد ہوئے تارکین وطن کے دلوں میں ا±بلتے غصے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔تحقیق پر لیکن توجہ مرکوز نہ رکھ پایا۔ عید کے پہلے دن ہی خبر آگئی کہ آئی ایم ایف بالآخر پاکستان کی”مدد“ کو ایک بار پھر رضا مند ہوگیا ہے۔وہ خبر آئی تو ہمارے ہاں کے نام نہاد ”پڑھے لکھے طبقات“ سے تعلقات رکھنے والے کئی ”دانشور“ ناراض ہوگئے۔ کئی مہینوں سے وہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی دہائی مچارہے تھے۔اس سے محفوظ رہنے کو شہباز حکومت پر اپنی تحریروں کے ذریعے دباﺅ بڑھاتے رہے کہ خواہ مخواہ کی اڑی دکھانے کے بجائے آئی ایم ایف کی پیش کردہ تمام شرائط کو من وعن تسلیم کرلیا جائے۔آئی ایم ایف کو اڑی دکھانے کی وجہ سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی ان کی تنقید کا شدید نشانہ رہے۔حیران کن بات مگر یہ ہوئی کہ بالآخر وزیر اعظم شہباز شریف کی مسلسل کاوشوں کی بدولت آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوگیا تو اس کے ”طلب گار“ دانشور ایک اور راہ پر چل پڑے۔نہایت سفاکی سے اصرار کرنے لگے کہ پاکستان اگر دیوالیہ ہوجاتا تو اس کے نتیجے میں یہاں شاید ”انقلاب“ برپا ہوجاتا جس کی بدولت ”پرانے پاکستان“ کی راکھ سے ”نیا پاکستان“ نمودار ہوتا۔ ان کے خیالات نے مجھے پریشان کردیا۔ فقط صحافتی تجربے کی بنیاد پر ان ممالک کے عوام پر نازل عذابوں کا ذکر شروع کردیا جو سری لنکا اور لبنان میں ”دیوالیہ“ کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں۔ میری خوش قسمتی کہ اتوار کے روز چھپے ایک طویل مضمون میں ہمارے ایک نسبتاََ جوان سال ماہر معیشت خرم حسین نے بھی ٹھوس حوالوں سے دیوالیے کے خواہاں دانشوروں کو خوب غفلت سے جگانے کی مدلل کوشش کی۔
آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوجانے کے بعد بازار میں جو رونق لگی اس نے دل اداس کو ہمارے مستقبل کے حوالے سے کافی تسلی دی۔ معاشی استحکام مگر سیاسی استحکام کے بغیر نصیب ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ مجھے گماں تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد ہم امید بھرے دلوں کے ساتھ نئے انتخابات کی جانب سفر شروع کردیں گے۔ پیر کی رات سے مگر بہت تیزی سے یہ افواہ پھیلنا شروع ہوگئی کہ سابق وزیر اعظم منگل کے روز مختلف مقدمات کی سماعت کے لئے اسلام آباد آئے تو غالباََ لاہور واپس نہیں جاپائیں گے۔کسی نہ کسی مقدمے میں گرفتار ہوجائیں گے۔جو افواہ بہت تیزی سے پھیلی اس کی تصدیق یا تردید کا مجھے قابل اعتماد ذریعہ نہ ملا۔ منگل کی صبح ا±ٹھتے ہی فقط یہ کالم لکھ دیا ہے۔ اسے دفتر بھجوادینے کے بعد اخبار پڑھنے کے بجائے لیپ ٹاپ کھول کر ٹویٹر اکاﺅنٹ پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔ شاید ٹی وی بھی آن کرنا پڑے۔

ای پیپر دی نیشن