9 مئی کی سہ پہر اور رات کے ابتدائی لمحات قیامت کا منظر پیش کررہے تھے ۔ 16دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوا تھا، 9 مئی 2023ء کی منصوبہ بندی نے اس امر کو یقینی بنایا کہ پاکستان خدانخواستہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر رہ جائے ۔ پاکستان کی سرزمین کا سینہ شق ہوجائے، اسکے اوپر آسمان کی چھت پھٹ پڑے۔ انسانی تاریخ کے صفحات سے پاکستان کی تاریخ اور نقشہ خاکم بدہن مٹادیا جائے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس نہ بھی کرتے تو مجھے 9 مئی رات گیارہ بجے تک یہ گمان ہوچکا تھا کہ میرا وجود مٹنے کو ہے مگر پھر کوئی معجزہ ہوا ، سرنگ کے دوسرے پار روشنی کی کرنیں نمودار ہوئیں۔ اس اعصاب شکن ماحول میں اگر کوئی شخص چٹان بن کر ، تن کر کھڑا تھا تو اس کا نام جنرل عاصم منیر تھا۔ وہ پاکستان کا آرمی چیف تھا۔ فوج کے 200مقامات کو شرپسندوں نے نشانہ بنایا تھا ، کاش! ڈی جی آئی ایس پی آر ان 200مق امات کی مکمل فہرست شائع کرتے لیکن جب ملک کا جی ایچ کیو سلامت نہ رہا ، لاہور کا کور کمانڈر ہائوس شعلوں کی نذر کردیا گیا، میانوالی اور سرگودھا کے فضائی اڈوں پر بلوائی چڑھ دوڑیں ، فیصل آباد کے آئی ایس آئی کے دفتر کو نشانہ بنالیا جائے ، نشان ِ حیدر شہیدکیپٹن کرنل شیرخان کا مجسمہ تہہ و بالا کرنے کی جسارت کی جائے، شہداء کی تصاویر اور یادگاروں کو چیرپھاڑکر رکھنے کی مذموم کوشش کی جائے، اس صورتحال میں کسی بھی آرمی چیف کے اوسان خطا ہوسکتے تھے۔
ایک کورکمانڈر اور دو میجر جنرل بلوائیوں کے ساتھ مل گئے ہوں، تین میجر جنرل اور7 بریگیڈیئر زاپنے فرائض منصبی سے پہلو تہی کررہے ہوں تو یہ ٹائی ٹینک سے بڑی تباہی کا منظرنامہ تھا۔ ایک سابق آرمی چیف کی نواسی اور جرنیلوں کی بیگمات ، داماد ودیگر رشتہ دار بلوائیوں کی قیادت کررہے ہوں تو فوج کی کمان کو قائم رکھنا بظاہر ناممکن نظر آتا تھا۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ پاکستان کا قیام خدائی معجزہ تھا۔ میں نے 9 مئی 2023ء کی شب اس معجزے کو ایک بار پھر نمودارہوتے دیکھا۔ یہ معجزہ تھا یا کرامت تھی کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنے ہوش و حواس قائم رکھے اور وہ بظاہر بکھرتی ہوئی، ٹوٹتی ہوئی فوجی کمان کو سنبھالا دینے میں کامیاب رہے ۔ میں ان کی خداد اد صلاحیتوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ اسکے ساتھ ساتھ درجہ بدرجہ فوجی کمانڈروں کی حب الوطنی اور فرض شناسی کو بھی داد دیتا ہوں۔ 9 مئی کے بعد کورکمانڈرز کی میٹنگ میں ان حالات کا جائزہ لیا گیا، پھر فارمیشن کمانڈرز کی میٹنگ کاانعقاد ہوا، انکے اعلامیے سامنے آئے جو مایوسیوں کے بھنور میں گھری قوم کے لیے مینارۂ نور ثابت ہوئے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس کی تو ان کے محکمے کے ایک سابق افسر کرنل سفیر تارڑ نے مجھے فون کیا ، ان کے لہجے سے بلا کا حوصلہ ٹپک رہا تھا، ان کا کہنا تھا کہ یہ پریس کانفرنس سن کر ان کی امیدیں جاگ گئی ہیں، ان کے حوصلے آسمانوں کو چھورہے ہیں ۔ یہ پریس کانفرنس تاریخ کا حصہ ہے بلکہ بجائے خود ایک تابناک تاریخ ہے جس کا ایک ایک لفظ دلوں کی دھڑکن کو تیز کرتا ہے اورغم وغصے سے رگ رگ میں خون کھولتا ہے۔ میں اسے ریکارڈ کے لیے قارئین کی خدمت میں محفوظ کررہا ہوں:
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ مفصل احتسابی عمل کے بعد انکوائری سفارشات کی روشنی میں گریژنز، فوجی، تنصیبات، جی ایچ کیو اور جناح ہائوس کی سکیورٹی یقینی بنانے میں ناکامی پر لیفٹیننٹ جنرل سمیت 3 فوجی افسران نوکری سے برخاست، 3 میجر جنرلز، 7 بریگیڈئرز سمیت 15 افسران کے خلاف سخت تادیبی کارروائی مکمل کر لی گئی، سابق فور سٹار جنرلز کی نواسی،داماد، بیگم، سابق ٹو سٹار جنرل کی بیگم اور داماد پاک فوج کے احتسابی عمل سے گزر رہے ہیں، آرمی ایکٹ کے تحت سانحہ 9 مئی کے102 ذمہ داران کے خلاف ٹرائل جاری ہے، 9مئی واقعہ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کا ایک مقصد، منصوبہ بندی، سوچ تھی، اس سانحے کا الزام پاک فوج پر لگانا زیادہ شرمناک ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد 9 مئی کے واقعات سے متعلق آگاہ کرنا ہے، 9 مئی کے واقعات نے ثابت کیا کہ جو کام دشمن نہ کرسکا ان چند شرپسندوں نے کر دکھایا، 9 مئی کا سانحہ پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش تھی، اس سازش کے لیے سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلایا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اب تک کی تحقیقات میں بہت سے شواہد مل رہے ہیں، افواج پاکستان آئے روز عظیم شہداء کے جنازوں کو کندھا دے رہی ہیں توروزانہ کی بنیاد پر دہشت گردوں کی سرکوبی کی جارہی ہے، 9مئی کو شہداء پاکستان کے خاندانوں کی دل آزاری کی گئی، شہداء کے خاندان آج کڑے سوال کر رہے ہیں، کیا انکے پیاروں نے قوم کیلئے جانیں اس لیے دی تھیں؟ شہداء کے ورثا سوال کر رہے ہیں کہ ملوث افراد کب قانون کے کٹہرے میں لائے جائیں گے؟ آرمی کے تمام رینکس سوال اٹھا رہے ہیں کہ ہمارے شہداء کی یادگاروں کی اسی طرح بے حرمتی ہو رہی ہے تو ہمیں جانیں قربان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پاک فوج کی فیصلہ سازی میں مکمل ہم آہنگی اور شفافیت ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ رواں سال 95 افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی، افواج پاکستان ملک کے دفاع اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قربانیاں دیتی رہیں گی۔ فوج میں خود احتسابی کا عمل بغیر کسی تفریق کے کیا جاتا ہے، ملٹری کورٹس سے متعلق سپریم کورٹ میں کیس چل رہاہے، اس وقت ملک بھر میں 17 اسٹینڈنگ کورٹس کام کر رہی ہیں، ملٹری کورٹس 9 مئی کے بعد وجود میں نہیں آئیں، پہلے سے موجود اور فعال تھیں، ثبوت اور قانون کے مطابق سول کورٹس نے ان کیسز کو ملٹری کورٹس منتقل کیا ہے، ثبوت دیکھنے کے بعد قانون کے مطابق سول کورٹس نے یہ مقدمات ملٹری کورٹس بھیجے ہیں، ان تمام ملزمان کو مکمل قانونی حقوق حاصل ہیں، انھیں اپیل کا بھی حق حاصل ہے، ان ملزمان کو سپریم کورٹ میں بھی اپیل کا حق حاصل ہے۔
انھوں نے کہا کہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے اس کو پوری جانچ کے بعد ویلی ڈیٹ کیا، سزا اور جزا انسانی معاشرے، مذہب اور آئین پاکستان کا حصہ ہے، ہمارے لیے آئین پاکستان سب سے مقدم ہے، سانحہ 9 مئی کو فوج اور ایجنسیوں پر ڈالنے سے زیادہ شرمناک بات نہیں کی جاسکتی، گرفتاری کے چند گھنٹوں میں 200 مقامات پر فوجی تنصیبات پر حملہ کرایا گیا، کیا فوج نے خود اپنے خلاف ذہن سازی کروائی؟کیا تمام فوجی تنصیبات پر فوج نے خود حملہ کرایا؟ سوال کرتا ہوں کیا فوج نے اپنے ایجنٹس پہلے سے بٹھائے ہوئے تھے؟کیا ہم نے اپنے فوجیوں سے اپنے شہداء کی یادگاروں کو جلایا، جب یہ سلسلہ چل رہا تھا تو نامی بے نامی اکاؤنٹس سے کون پرچار کر رہا تھا کہ مزید جلاؤ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ملٹری لیڈر شپ اور افواج پاکستان 9 مئی کے ذمہ داروں سے مکمل آگاہ ہے، سانحہ 9مئی کو بھلایا جائے گا، نہ ملوث عناصر اورسہولت کاروں کو معاف کیاجائے گا۔آئی ایس پی آر کے سربراہ نے کسی قانونی مصلحت کی بناء پر سانحہ 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ اور اسکی پارٹی کا نام نہیں لیا مگر اتنا ضرور کہا کہ قوم ان سب کو جانتی اورپہچانتی ہے ۔