5 جولائی 1977 پاکستان کی تاریخ کا یوم سیاہ ہے- جب آمر جنرل ضیاء الحق نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ملک پر مارشل لاء مسلط کیا تھا-پارٹی کی مرکزی قیادت نے مارشل لاء کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کیلئے مزاحمتی تحریک چلانے اور گرفتاریاں پیش کرنے کا فیصلہ کیا- آئین معطل کرکے مارشل لاء کا جو فرمان جاری کیا گیا اسکے مطابق مارشل لاء کی خلاف ورزی اور مزاحمت کرنیوالے افراد کو ایک سال قید بامشقت اور دس کوڑے مارنے کی سزا مقرر کی گئی- پارٹی کے جیالوں میاں محمد منیر اور ناظم حسین شاہ نے اعلان کے بغیر گرفتاریاں پیش کردیں- راقم اس وقت پی پی پی پنجاب کا سیکرٹری اطلاعات تھا- میں نے پارٹی کے ترجمان اخبار روزنامہ مساوات میں اعلان کرکے گرفتاری پیش کرنے کا فیصلہ کیا- پولیس نے میری گرفتاری کیلئے چھاپے مارے- میں روپوش ہو گیا تاکہ مقررہ وقت پر گرفتاری کیلئے داتا دربار پہنچ سکوں- داتا دربار پارٹی کے سینکڑوں کارکن پہنچ گئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں- داتا دربار میں نماز پڑھنے کے بعد میں کارکنوں کے ہمراہ مین دروازے سے باہر نکلا تو ڈی سی سمیت پولیس کی بھاری نفری میری گرفتاری کیلئے موجود تھی- میں نے مارشل لاء کے خاتمے جمہوریت کی بحالی اور بھٹو کی رہائی کیلئے دعا مانگی- پولیس نے مجھے اور 20 کارکنوں کو گھیرے میں لے لیا - کارکنوں نے جئے بھٹو کے پرجوش نعرے لگائے خواتین نے مجھے امام ضامن باندھا- گرفتاری پیش کرنیوالوں میں ارشاد حسین، حاجی محمد طارق، محمد جاوید، محمد یونس، سائیں ہرا، شاہد بٹ، ملک کرم دین، الطاف کیڑی، محمد جہانگیر اور حسن بھیا شامل تھے - گرفتار کارکنوں کو کوتوالی پولیس سٹیشن لے جایا گیا۔ جس کمرے میں رکھا گیا وہ چھوٹا تھا۔ اسیر کارکنان نے رات جاگ کر گزاری - بقول احمد ندیم قاسمی -:
بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
چلی ہے رسم کہ دعا نہ مانگے کوئی
دوسرے روز مجھے شاہدرہ کی گندی حوالات میں مجرموں کے ساتھ رکھا گیا اور اسی روز شام کو دونوں ہاتھوں کو ہتھ کڑی لگا کر سمری ملٹری کورٹ میں پیش کیا گیا- ملٹری کورٹ کے جج میجر نے پوچھا کیا تم داتا دربار گئے تھے۔ میں نے ہاں میں جواب دیا- میجر نے کہا تم نے مارشل لاء کے ضابطے کو توڑا ہے اس لیے تمہیں ایک سال قید بامشقت اور دس کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے- تین منٹ کے اندر مجھے مجرم قرار دے کر کوٹ لکھپت جیل بھیج دیا گیا جہاں پر ذوالفقار علی بھٹو قید تھے- دوسرے روز شناخت پریڈ ہوئی اور میرے سر کے بال کاٹ دیے گئے حالانکہ سیاسی کارکنوں کے بال کاٹنے کا کوئی قانون نہیں ہے- جنرل ضیاء الحق نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ نوے روز کے اندر یعنی 18 اکتوبر 1977 کو عام انتخابات کرا دیے جائینگے مگر انہوں نے اپنا وعدہ توڑ دیا اور انتخابات موخر کر دیے کیونکہ فوجی انتظامیہ کو یقین تھا کہ انتخابات کی صورت میں پی پی پی ایک بار پھر اقتدار میں آجائیگی- 18 اکتوبر 1977کو ہم جیل کے اندر فیکٹری میں مشقت کر رہے تھے - حاجی طارق محمد جاوید اور مجھے بلاوا آیا ہم سمجھے کہ کوئی ملاقات کیلئے آیا ہے- ہم تینوں کو بھٹو صاحب کی بیرک کے ساتھ موت کی کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا۔ ہم سمجھ گئے کہ ہمیں کوڑے مارے جائیں گے- جیل کے ڈاکٹر نے ہمارا طبی معائنہ کیا اور ہمیں کوڑے کھانے کے قابل قرار دیا- میں نے کہا سب سے پہلے میں کوڑے کھاوں گا- میرے کپڑے اتار کر ایک پتلی لنگوٹی باندھ دی گئی اور مجھے نیم برہنہ کر دیا گیا - بھٹو صاحب کی بیرک سے ملحقہ بیرک میں ٹکٹکی لگائی گئی اور دربار سجایا گیا جیل اور فوج کے افسران کرسیوں پر بیٹھے تھے تاکہ کوڑے مارنے کا منظر دیکھ سکیں اور بھٹو صاحب کو کوڑوں اور چیخوں کی آوازوں سے ذہنی کرب میں مبتلا کیا جائے - اللہ نے مجھے حوصلہ دیا اور میں نے فوجی افسران سے دو سوال کیے- آپ نے کوڑے مارنے کیلئے مجھے ننگا کیوں کیا ہے کیا یہ انسانیت ہے- دوسرا یہ کہ آپ مجھے مارشل لاء کے ضابطہ کی خلاف ورزی کرنے پر سزا دے رہے ہیں مارشل لاء کا ضابطہ مجھے ایک ماہ کے اندر سمری ملٹری کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیتا ہے۔ آپ خود مارشل لاء کے ضابطے کا مذاق اڑا رہے ہیں - فوجی افسر نے کہا ہمیں اوپر سے حکم ہے-
میرے دونوں ہاتھ ٹکٹکی کے ساتھ باندھ دیے گئے۔ کوڑے لگانے والا دوڑ کر آتا اور میری پیٹھ پر کوڑا مارتا میں ہر کوڑے پر اللہ اکبر کہتا - فوجی افسر نے کہا اسے زور سے کوڑے مارو - اللہ کے فضل و کرم سے میں نے دس کوڑے بڑے حوصلے سے کھائے اور آخری کوڑے پر جئے بھٹو کا نعرہ لگا دیا جو فوجی افسران کو ناگوار گزرا - فوجی افسر نے مجھے سٹریچر پر لیٹنے کو کہا۔ میں نے انکار کرتے ہوئے کہا یہ میری سزا کا حصہ نہیں ہے- ایک فرلانگ چل کر جیل کے ہسپتال پہنچا - فوجی افسر نے کوٹ لکھپت جیل کے سپرنٹنڈنٹ حمید اصغر عرف پستول کو مجھے جیل کے اندر مزید تشدد کا نشانہ بنانے کیلئے کہا - اس نے جواب دیا بھٹو صاحب بھی اسی جیل میں ہیں نظم ونسق خراب ہو سکتا ہے۔ آپ اسے جیل سے باہر لے جائیں- مجھے شاہی قلعہ لے جایا گیا۔ ڈی ایس پی میرے زخم دیکھ کر پریشان ہو گیا- پی پی پی کے رہنما جسٹس ریٹائرڈ ملک سعید حسن نے ارجنٹ پٹیشن دائر کردی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے جواب طلب کر لیا کہ مسٹر نظامی کو کوڑے مارنے کے بعد کس قانون کے تحت جیل سے شاہی قلعہ لے جایا گیا ہے- اس جواب طلبی کے بعد مجھے رات کو واپس کوٹ لکھپت جیل بھجوا دیا گیا - میری گرفتاری اور کوڑے کھانے سے مارشل لاء کا خوف ختم ہوگیا اور پارٹی کارکنوں میں حوصلہ پیدا ہوا مگر افسوس مرکزی سطح کے لیڈر گرفتاریاں پیش کرنے پر آمادہ نہ ہوئے اور چند جیالوں کی گرفتاری کے بعد گرفتاریوں کا سلسلہ رک گیا-
جنرل ضیاء الحق نے نظریاتی جماعت پی پی پی کو ختم کرنے کیلئے ریاستی مشینری استعمال کی- بھٹو صاحب کا عدالتی قتل کرایا گیا- کارکنوں کو پھانسیاں دی گئیں انہیں کوڑے مارے گئے، شاہی قلعہ میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہزاروں کارکنان جلا وطنی پر مجبور ہوئے - جنرل ضیاء الحق کا جبر و تشدد سیاسی جماعت کو ختم نہ کر سکا - پی پی پی آج بھی سیاست کے میدان میں موجود ہے-ضیاء الحق نے نفرت تعصب انتہا پسندی دہشت گردی ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کی جو فصل کاشت کی اس کا خمیازہ آج تک پوری قوم بھگت رہی ہے- پاکستان میں لگنے والے مارشل لاوں نے سیاست اور جمہوریت کو کمزور کیا سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی استحکام پیدا نہ ہو سکا-مارشل لاوں نے سیاست اور جمہوریت کو کمزور کیا- سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی استحکام پیدا نہ ہو سکا-