یورپ سے سرمئی گھٹا اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے سر پر آ پہنچی۔ بچے ننگ دھڑنگ ہو کر گلیوں میں نکل آئے۔ بڑوں کے دل میں بھی ترنگ اٹھی، وہ بھی پاجامے نیکر پہن کر گلی میں آ گئے اور غسلِ باراں کیلئے تیار ہو گئے۔ لیکن یہ کیا ، سرمئی گھٹا دراصل کالی آندھی تھی۔ ایک لمحہ کی مہلت بھی نہیں دی کہ گردو غبار نے سب کے چہروں اور جسم پر بھبھوت مل دیا، درخت ٹوٹنے لگے، چھتوں سے چیزیں اڑ اڑ کر اِدھر اْدھر گرنے لگیں۔ اب تو سبھی گھروں کو بھاگے، کھڑکی کواڑ بند کر کے اندر دبک رہے۔
یہی ہوا ہے۔ سال بھر سے چیزوں کی قیمتیں کم ہو رہی تھیں، مہنگائی کی شرح گھٹتے گھٹتے 11 فیصد پر آ گئی۔ سبھی نے خوشحالی کی بارش میں نہانے کیلئے کچھے بنیان پہن لئے اور اِدھر یہ ہوا کہ بجٹ کی کالی آندھی آ گئی۔ آندھی کیا تھی، ٹیکسوں کا طوفان تھا، مہنگائی کے پتھر سروں پر پڑنے لگے اور اب پورے ملک میں بھگدڑ مچی ہے۔
_____
دیکھا جائے تو معاملہ سخن فہمی عالم بالا کا لگتا ہے۔ عالم بالا سے مراد شہباز حکومت ہے۔ آئی ایم ایف نے کہا، امیروں پر ٹیکس لگائو، عالم بالا کی قوت سماعت میں خلل تھا۔ اس نے یوں سنا کہ غریبوں پر ٹیکس لگائو سو اندھا دھند لگاتے رہے۔ اپنی معاشی معلومات تو میرے پاس منفی صفر ہیں لیکن کل ایک ممتاز تجزیہ کار طلعت حسین کا ولاگ سنا۔ انہوں نے بتایا کہ تنخواہوں میں اضافہ کا تو بس نام تھا، اتنے ٹیکس لگ گئے اور ان میں پھر سپر ٹیکس بھی دس فیصد کے حساب سے ڈال دیا، اب جس کی تنخواہ سو روپے تھی، اس کی محض 25 روپے رہ گئی، 75 روپے عالم بالا لے اڑا۔
سخن فہمی کا دوسرا ماجرا یہ ہوا کہ آئی ایم ایف نے کہا کہ وفاقی حکومت اپنے خرچے کم کرے۔ عالم بالا نے سنا کہ زیادہ کرے سو اس نے اس سنے پر عمل کیا۔ اوّل خویش بعد درویش کے مصداق سب سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے اخراجات میں جمبو سائز کااضافہ کیا۔ بعدازاں درویشوں کی باری آئی۔ اعلیٰ سرکاری افسروں کو جنّت کے پہلے آسمان سے اٹھا کر ساتویں فلک پر لے گئے۔ ارکان اسمبلی کی تنخواہیں اور مراعات بڑھائیں، وزیروں مشیروں کے اخراجات بڑھائے۔ ریٹائرڈ سرکاری (ہمہ قسم بیورو کریسی) افسروں کو اربوں کھربوں کی جائیدادوں کی خرید و فروخت میں چھوٹتے ہی چھوٹ دے دی۔ ملک کی زیادہ تر ہائوسنگ سوسائٹیاں اور پراپرٹی بزنس انہی ریٹائرڈ بزرگوں کے ہیں چنانچہ ان کے وارے نیارے کو دس سے ضرب دی گئی۔ بڑے بڑے صنعتی ادارے جو بجلی چوری کرتے تھے، ان کیلئے بجلی کے نرخ کم کر کے مفت کے بھائو کر دئیے۔
سخن فہمی عالم بالا نے خوب کرشمے دکھائے
_____
مریم نواز کی پنجاب حکومت کیوں پیچھے رہتی۔ آئی ایم ایف نے اسے کچھ خاص ہدایات براہ راست نہیں دی تھیں لیکن فرض شناسی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے بھی مراعات یافتہ طبقے پر مراعات مزید کی بوچھاڑ شدید کر دی۔ -24 بڑے بیوروکریٹس سے کہا، چھوڑو ان پرانے محلات کو، تمہیں 2 ارب روپے سے نئے اور شایان شان لگژری بنگلے بنا کر دیتے ہیں۔ نئی، مہنگی لگڑری گاڑیوں کا بیڑہ پہلے ہی ان کی خدمت میں پیش کیا جاچکا تھا۔
کمشنر لاہور پرانے دفتر سے اکتا گئے تھے، اس کی تزئین و آرائش کیلئے لگ بھگ 70 کروڑ کی رقم دان کر دی۔ اتنی رقم میں نیا کمشنر آفس بن سکتا تھا لیکن آثار قدیمہ کو آثار جدیدہ میں بدلنے کا مزہ کچھ اور ہی ہے۔ سو کمشنر صاحب کو یہ مزہ چکھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ادھر پنجاب کے محتسب نے اپنا دل بہلانے کو سرکاری خزانے سے 80 لاکھ روپے کے سات آئی فون منگوا لئے۔ پانچ سے بھی کھیلا جا سکتا تھا لیکن سات کا عدد بابرکت ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیڈن کو مانگے سات سات آئی فون، سرکاری خزانے میں مستحقین کیلئے کوئی کمی نہیں ہے۔
_____
ادھر اطلاع ہے کہ عوام کے جذبات میں ابال آنا شروع ہو گیا ہے۔ ابھی شروعات ہے، ابال نکتہ کھولائوتک ابھی نہیں پہنچا لیکن کتنی دیر لگے گی، گھر گھر دہائی کی استھائی اٹھ رہی ہے، پھر الاپ ہو گا، راگ اس کے بعد بجے گا۔
جے یو آئی سمیت تمام جماعتیں الیکشن دھاندلی، نئے انتخابات وغیرہ کی قوالی گا رہی ہیں، عوامی راگ میں سنگت جماعت اسلامی کے سوا کوئی نہیں دے رہا۔ -12 جولائی کو اس نے اسلام آباد میں دھرنا دینا ہے اور اس کے امیر نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ دھرنے کی تاریخ دے دی، دھرنا کب ختم ہو گا، اس کی تاریخ نہیں دے سکتے۔ دوسرے لفظوں میں دھرنا لامتناہی ہو گا۔ اسلام آباد پھر سے عالمی خبروں کی زد میں ہو گا۔ سخن فہمی عالمِ بالا نے دن یہ دکھائے۔
_____
1970ء کی دہائی سے ایک مطالبہ بڑے مقبول نعرے کی شکل میں چلا آ رہا تھا، یہ کہ کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر ہونی چاہیے۔ کئی برسوں سے یہ نعرہ متروک ہو گیا ہے یعنی سننے میں نہیں آ رہا ہے۔
بہرحال ، وزیر اعظم نے بجلی کا بل ایک تولہ سونے کے برابر کر دیا۔ چلئے، ایک تولہ سونے کا مطالبہ منظور تو ہوا، چاہے بشکل دِگر ہی ہوا۔
اب وزیر اعظم شہباز شریف کی اس تاریخی تقریر کو پھر سے کرنے کا وقت آ گیا ہے کہ ’’میں اپنے کپڑے بیچ کر بھی مہنگائی دور کروں گا۔
_____
حقیقی آزادی کے کمانڈروں میں ایک دوسرے کو خطابات دینے کی دوڑ چل رہی ہے۔ غدّار ، ڈبل ایجنٹے ، کمپرومائزڈ وغیرہ کے خطابات سے بات آگے بڑھ گئی۔ دو روز پہلے کمانڈر شیر مروت نے کمانڈر فواد چودھری کو ہتھنی قرار دیا اور یاد دلایا کہ وہ عدالت کے باہر سے گرفتاری کے ڈر سے ہتھنی کی طرح بھاگے تھے۔
بادی النظر میں فواد چودھری کو ہتھنی کہنا تزکیرو تانیث کی غلطی ہے جو حقیقی آزادی کے پختونخواہ صوبہ سے تعلق رکھنے والے کمانڈر اکثر کیا کرتے ہیں۔ کمانڈر مراد سعید کی وہ تقریر یاد ہو گی کہ کان صاحب حکومت میں آئے گی، دو ارب لائے گی، ایک ارب آئی ایم ایف کے منہ پر مارے گی، ایک ارب خود کائے گی۔ فواد چودھری صاحب اس غلطی کی درستگی کا اشتہار دیں اور واضح کر دیں کہ ہتھنی کی جگہ ہاتھی پڑھا جائے۔