رنگ ِ تہذیب

چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہم اپنی پسند وناپسند کا اظہارکرتے ہیں ۔ کچھ اطوار ہمیں بھلے لگتے ہیںا ور کچھ ہمیں ناگوار گزرتے ہیں جبکہ یہ رویہ خالصتاً ہمارا ذاتی ہوتاہے تہذیب روایت اور ماحول ہمارے اندر بہت سی تبدیلیاں لاتاہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان اس تبدیلی میں جو خود پسندکرتاہے اسے اختیارکرلینا چاہے وہ زبان ہو لباس ہو یا نئی ریت بنائی ہو۔ اپنی زبان اور تہذیب کوبدلنا اوراسے نئی زبان اور تہذیب کا لباس اوڑھانا اتنا آسان نہیں ہوتا، پہلے تو کوئی شخص اگر لندن سے لوٹتا تھا تو لوگ اپنے گلی محلوں سے نکل کر اور خواتین اپنی بالکنی سے اسے ایسے دیکھتی تھیں کہ جیسے کوئوں کے دیس میں مور آگیا ہومگر اس علاقے کے بڑے بوڑھے، بوڑھیاں اس کو ہرنئی حرکت اور زبان میں نئے لفظوں اور لہجے کی تبدیلی کو اپنی روک ٹوک کی قینچی سے کتر دیتی تھیں۔ نوجوان اور محلے کی لڑکیاں اس کی عادات کو اپنانے اور سراہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھیں مگر پھر بھی یہ بدلائو قبول نہیں کیاجاتا تھا،اور نئے لفظ نئی زبان نیا لہجہ ،نیا لباس اور طور اطوار یا تو اس آدمی کو واپس لندن لے جاتے یا پھر وہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن کے زندگی گزارتا۔یہاں ثابت یہ ہوتاہے ہمارے بزرگ استاد اور تربیت جتنی مضبوط اورمتوجہ ہوگی اتنا ہی ہم اپنی تہذیب زبان اور اطوار سے جڑے رہیں گے۔ اگرہمارا تعلق امیر طبقے سے ہے تو ہمارا ان تمام چیزوں سے ہماری مرضی کے بنا جڑے رہنا ناگزیرہے اور جو درمیانے یا غریب طبقے کا فرد ہے یا خاندان وہ اپنے گرد پھیلے اس نوٹنکی نما ماحول اور تہذیب سے جڑتاہے تو اپنا نہ صرف مذاق بناتاہے بلکہ اکثر مایوس اور دلبرداشتہ ہوکر ذہنی مریض بن جاتاہے جس معاشرے میں اسلام علیکم کی جگہ ہیلو، خدا حافظ کی جگہ BYE جانے کہاجانے لگے تووہاں پہ ہم کیا توقع کریں کہ ہمارا مستقبل روشن ہوگا،جب سلامتی ہی ختم کردی اور اللہ کی حفاظت میں رہنے کی سوچ ختم ہوگئی توپھر کیا؟ سندھی، بلوچی، سرائیکی،پشتو اور اردو یہ زبانیں اپنی تہذیب اور مخصوص اطوار وتعلیم سے منسلک ہیں، ان کی موسیقی سے لے کر تعلیم تک زبان سے لے کر لباس تک تہذیب سے لے کر معاشرے تک ایک خوبصورت تسلسل، زندگی،تعلق وکردار سے جڑا  ہوا ہے جس سے ہم سب لطف اٹھاتے ہیں اور باعث فخر سمجھتے ہیں۔
لیکن جب صدرمدرس سے پرنسپل ہوگیا، بھٹیارے سے مینیجر ہوگیا، مدرسہ سکول یا کالج میں بدل گیا، تہذیب کچھ اس طرح روشن خیالی میں داخل ہوگئی کہ گلی میں بنٹے یا گلی ڈنڈا کھیلنا اور بندر کا تماشا دیکھنے پر سننے کو ملتاہے کہ کیا اوباش لڑکوں کی طرح یہاں کھڑے دیکھ یا کھیل رہے ہوں ،آوارہ گرد بنناہے کیا لیکن جب گلی میں کرکٹ یافٹ بال کامیچ ہورہاہو تو طنزکرنے اور اوباش کہنے والے تمام حضرات سمیت وہاں کمنٹری میں حصہ لے رہے ہوتے ہیں توجناب کیا یہی وہی گلی یا میدان نہیں جہاں فارغ اوقات میں بنٹے،گلی ڈنڈا، کوکلاچپاکی یا کبڈی کھیلی جاتی تھی،اسی طرح ہماری تہذیب کا ایک حصہ ہمارے میراثی اور بھانڈ بھی ہیں جو محفلوںمیں لوگوں کو ہنساکر داد وصول کرتے ہیں اور اپنی روزی کماتے ہیں۔ ان سے رشتہ داری یا دوستی کو بیان کرنا لوگوں کیلئے خفت کا باعث بن چکاہے ،تو کیسے جناب کہ پھر ایسے ہی ہنسانے والے چارلی چپلن، مسٹربین اور دیگر کرداروں کوکیا خوب داد دی جاتی ہے اکثر تو مہنگی ٹکٹیں خرید کر فلمیں دیکھی جاتی ہیں آپ بتایئے ہمارے بھانڈمیراثی میں اور ان میں کیا فرق ہے صرف ہماری سوچ اور مغربی تہذیب کے جادوکا اثر ہے کسی بھی ملک نے کبھی اپنی تہذیب زبان اور اطوار کے ساتھ اصول اور ضابطے نہیں بدلے، ہماری زبان بین الاقوامی سطح پر سننے کو نہیں ملتی۔ ہمارا لباس پہننے کو نہیں دیکھا جاتا مگر ہمارے ہاں ٹی شرٹ، پرمودا، حیاکی حرمت سے خالی لباس۔ پنجابی اور اردو میں گالیاں جو سن کر معززان علاقہ خود سے شرمندہ ہواکرتے تھے اب انگریزی میں ہنسی مذاق کا حصہ بن چکے ہیں، والدین سے ادب کا درجہ یہاں تک گرچکاہے کہ انھیں کہاجاتاہے آپ تو پاگل ہو چکے ہیں، آپ ہمارے زمانے کے نہیں ہمارے زمانے کے مطابق فیصلے کریں آپ جانتے کیا ہیں؟
یونیورسٹیز کا حال ایسا ہے کہ جیسے ننگِ قباکا ایک میلہ تمباکو نوشی، شیشے کابازار گرم۔ 1960ء کی دہائی سے لے کے2000ء تک ہماری تہذیب دینی تعلیم، مدرسوں روایت اور کردار کا یوں جنازہ نہیں نکلا تھا جتنا کہ2000ء کے بعد نکالاگیا، آج2021ء میں تو ہمیں خال خال ہی ہرطبقے میں حیا اور اعلیٰ تربیت نظرآتی ہے، نائی کی قینچی اور استرے کی دکان سیلون میں بدل دی گئی عورتوں کے ابٹن لگانے والے اب بیوٹی پارلر والی بن بیٹھیں، بے شک ترقی کرنا  کامیاب معاشرے کی علامت ہے لیکن اس ترقی میں اس کامیابی کی دوڑمیں ہمیں اپنی تہذیب، قدریں ، مذہبی تعلیم وتربیت، اعلیٰ کرداراور شعور کی روشنی کی مغربی تہذیب کی چکاچوند روشنی جو نظرکو خیرہ کرنے کی بجائے اندھاکردیتی ہے کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔ ہماری پہچان قومی زبان اردو ہے، ہمارا لباس حیادار ہے، ہماری تعلیم وشعور اسلامی درس ہے، ہمارا کردار انسانیت کی معراج ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...