ؒ پانچ جولائی 1977 ء ملکی تاریخ کا ایک باب

Jul 05, 2024

محمد اعجاز الحق

5جولائی1977‘ ملک کی سیاسی تاریخ کا نہایت اہم باب ہے، آج سینتالیس سال گزر گئے چکے ہیں مگر پانچ جولائی 1977 آج بھی اس لیے سیاسی موضوع ہے کہ اس اقدام کی وجہ سے ملک مشرقی پاکستان جیسے کسی دوسرے سانحے سے بچ گیا بلکہ محفوظ بنادیا گیا تھا‘پانچ جولائی 1977 اور16دسمبر1971 کے درمیان محض ساڑھے پانچ سال کا وقفہ ہے‘ پوری قوم آج بھی سانحہ مشرقی پاکستان کے غم سے باہر نہیں نکل سکی اس وقت تو اس سانحے کومحض ساڑھے پانچ سال ہوئے تھے‘ یہ وہ حالات تھے ملک میں پہلے عام انتخابات ہوئے جس کے نتائج تسلیم نہیں کیے گئے بلکہ پوری قوم پیپلزپارٹی کے خلاف انتخابات میں منظم دھاندلی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھی‘ ملکی تاریخ میں یہ دوسری بار تھا کہ انتخابی نتائج تسلیم نہیں کیے اس لیے کہ اس وقت کی حکومت خود منظم دھاندلی میں ملوث تھی‘ یہ نقطہ نگاہ کسی تعصب یا سیاسی سوچ اور فکر کے اختلاف کی بنیاد پر قائم نہیں کیا گیا بلکہ تلخ حقائق ہیں 5جولائی1977 کے فوجی اقدام سے متعلق بہت کچھ کہا اور لکھا بھی گیا،بہت کچھ لکھا بھی جارہا ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ملک میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کی سیاسی لیگیسی نہ صرف موجودہے بلکہ اس ملک کی ترقی، سلامتی،خوشحالی اور اس ملک کے دفاع کو مضبوط بنانے کے ناقابل تسخیر اقدامات کی وجہ سے عوام میںانکی سیاسی وراثت کا دائرہ مسلسل پھیل رہا ہے، جب بھی ملکی دفاع کو مضبوط بنانے اور ملک میں اسلامی نظام حیات کے عملی نفاذ کے لیے کیے گئے اقدامات کا ذکر ہوگا تو صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کے بغیر یہ ذکر مکمل نہیں ہوسکتا‘ یہی وجہ ہے کہ ہر روز ان کے مزار پر عقیدت مند دعا کے لیے آتے ہیں اور 17اگست کو ان کے یوم شہادت پر ہر سال ملک بھر سے لاکھوں عقیدت مند دعا کے لیے آتے ہیں پانچ جولائی کے اقدام کو اب تقریبا ًنصف صدی ہونے کو ہے، کئی بار سوچا کہ ملک کے شہری اور ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے اس پر اپنی رائے دوں، مگر یہ سمجھ کر خاموش رہا کہ ہوسکتا ہے اسے تعصب کی نگاہ سے دیکھا جائے، تاہم تعصب اور حقائق کی کشمکش میں ہمیں نظریہ پاکستان، اسلام اور اس ملک کی مٹی کا ایک ایک ذرہ حقائق کا ساتھ دینے اور اس کا پرچار کرنے کی تلقین کرتا ہے، پاکستان کے آئین، اور کسی بھی جمہوری پارلیمانی نظام میں آئین سے ہٹ کر اور اس کے متعین کردہ دائرے سے باہر نکل کر ملک کا نظم و نسق سنبھالنا سیاسی جمہوری لحاظ سے کبھی پسندیدہ عمل نہیں سمجھا گیا، اور نہ سمجھاجائے گا، لیکن جہاں ملکی سلامتی کے تحفظ کی قسم کھائی ہو اور ملکی دفاع اور اس کی سلامتی ہی متاع عزیز ہو تو پھر ملکی سلامتی کے تحفظ کو ترجیح دینا ہی ملکی سلامتی کے تحفظ کی قسم کا تقاضہ کرتا ہے۔ جمہوری اور سیاسی لحاظ سے ہمارا آئین مقدم ہے اور جب آئین ہی اس عمل کو جائز قرار دے دے اور آئینی تحفظ فراہم کردے تو پھر بحث ہی ختم ہوجاتی ہے،1985کی منتخب قومی اسمبلی نے آئین کی آٹھویں ترمیم میں ان تمام اقدامات کو آئینی تحفظ دیا ہوا ہے، تاہم ایک طبقہ ہے جو فیشن کے طور پر اپنی بات کرتا رہتا ہے، پانچ جولائی 1977 کے اقدام کیوں اٹھایا گیا؟ یہ سوال اس قدر اہمیت کا حامل ہے اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے سیاست کے طالب علموں کو آئین کے مطابق حکومت اور اس کے آئنی فرائض کا جائزہ لینا چاہیے‘ آئین کا جائزہ لیتے ہوئے ان تمام سوالوں کے جواب مل جائیں گے جو پانچ جولائی کے اقدام کے حوالے سے اٹھائے جاتے ہیں‘ آئین کہتا ہے کہ ملک کے ہر شہری کو کسی امتیاز کے بغیر روزگا کا حق دینا ریاست کی ذمہ داری ہے اور حکومت اس آئینی ذمہ داری کو پورا کرے گی لیکن بھٹو صاحب کے پورے دور میں زندہ رہنے کا‘ روزگار کے حصول کا اور مخالفین سے زندہ رہنے کا حق چھین لینے کا حکومت کی سرپرستی میں لائسنس صرف پیپلزپارٹی کے کارکن کے پاس ہی تھا ملک کے معاشی روزگار کے سارے در صرف پیپلزپارٹی سے وابستہ افراد کے لیے کھلے تھے، راشن ڈپو انکے نام الاٹ تھے، حالت یہ ہوا کرتی تھی کہ اگر محلے میں کسی گھر میں شادی ہوتی تو وہ پوری گلی کے راشن کارڈ اکٹھے کرکے چینی لینے پر مجبور ہوتا، ملکی سیاست کاعالم یہ تھا کہ اس وقت بھٹو صاحب کی حکومت اور اپوزیشن اتحاد ایک دوسرے کو دیکھنے اور برداشت کرنے کے روادار نہیں تھے، ملک کی انتظامی مشینری عوامی احتجاج کے نتیجے میں تقریباً مفلوج ہوچکی تھی، سپریم کورٹ نے نصرت بھٹو کیس میں اپنے فیصلے میں اس کا تفصیلی ذکر بھی کیا ہے،5جولائی کا مارشل لا تو بعد میں نافذ ہوا، اس سے پہلے خود بھٹو حکومت کے دور میں آئین میں دی گئی گنجائش کی آڑ لے کر ملک کے تین شہروں میں ضلعی انتظامیہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج سے مدد طلب کرچکی تھی اور باقاعدہ مارشل لانافذ کیا مگر اس کے باوجود عوام اس حکومت کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے رہے، یہ ساری صورت حال7 مارچ1977 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی شکایات کے بعد عوام کے احتجاج کی صورت میں پیدا ہوئی تھی، جس سے ملک میں امن و مان کا شدید مسئلہ پیدا ہوا،7 مارچ1977 کے عام انتخابات سے پہلے ملک میں بھٹو صاحب کی حکومت تھی، اور ملک میں اس حکومت کو کوئی چیلنج نہیں تھا، آئین کے تحت قومی اسمبلی کی مدت14 اگست1977 کو ختم ہونے والی تھی، بھٹو صاحب نے 1975 میں ہی ایک سال قبل ملک میں عام انتخابات کرانے عندیہ دے دیا تھا، تاریخ شاہد ہے کہ وہ اس وقت بائیں بازو کے اپنے انقلابی حامیوں کے ہاتھوں ہی پریشان تھے، کسنجر کہانی بھی اسی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرانے کا اعلان کرکے بھٹو صاحب نے انتخابی مہم بھی شروع کردی اور5 جنوری 1977 کوملک میں مزید زرعی اصلاحات کرکے مالیہ ختم کردیا اسکے علاوہ 25 ایکڑ نہری اور50 ایکڑ بارانی اراضی کے مالکان کیلئے انکم ٹیکس بھی معاف کردیا اگلے ہی روز سول اور فوجی ملازمین کی پنشن میں دوگنا اضافہ کردیا اور10 جنوری1977 کو صدر فضل الٰہی چوہدری نے قومی اسمبلی تحلیل کردی، اعلان کیا کہ عام انتخابات وقت سے پہلے 7 مارچ کو ہوں گے اور 10 مارچ کو صوبائی اسمبلی کے لیے پولنگ ہوگی، ملک میں عام انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ کاغذات نامزدگی17 جنوری تک وصول کیے جائیں گے۔  (جاری) 

مزیدخبریں