اب تو 45 برس قبل ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی فیصلے کے تحت تختہ دار پر چڑھانے کا اقدام سپریم کورٹ نے بھی عدالتی قتل کی صورت میں تسلیم کر لیا ہے اور آج پھر پیپلز پارٹی اور ’’ضیاء الحق کی باقیات‘‘ باہم تال میل کے ساتھ مشترکہ طور پر شریک اقتدار ہیں تو آج پانچ جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق کے ماورائے آئین اقدام کے تحت رونما ہونے والے سانحہ کی، جو بھٹو کی پھانسی پر منتج ہوا تھا، یاد تازہ کرنے کا ماضی کے ظالم اور مظلوم کی جانب سے کوئی مشترکہ اہتمام ہو پائے گا یا ماضی کی طرح ہی ایک کا سیاپا اور دوسرے کی تحسین ہو گی؟
اب تو پانچ جولائی کے سانحہ کو گزرے بھی 47 برس ہو چکے۔ ہر سال کا 5جولائی متعلقین سے استفسار کرتا ہے کہ انہوں نے پانچ جولائی کی تاریخ دہرانے نہ دینے کیلئے اب تک کیا تردد کیا اور کس اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کیا مگر اس کا جواب آتے آتے 12 اکتوبر 1999ء بھی رونما ہو گیا جس سے ثابت ہوا کہ جمہوریت کے ثمرات سے خود کو مستفید کرنے اور عوام کو محروم رکھنے والے ہمارے سیاسی کرمفرماؤں نے کچھ سبق حاصل کرنے کے بجائے زہر کو ہی تریاق سمجھ کر پینے کا عزم کر رکھا ہے کیونکہ اسی میں ان کے مفادات وابستہ ہیں۔
جن سیاسی قیادتوں نے پانچ جولائی اور 12 اکتوبر سے سبق حاصل کرنا ہے‘ وہ آج بھی آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر ناقابلِ برداشت مہنگائی کے ذریعے عوام کے کڑاکے نکال کر ایسا ہی ’’سعد‘‘ دن طلوع کرنے کی راہ ہموار کرتے نظر آتے ہیں اور سانجھے اقتدار میں باہم شیروشکر ہیں۔ بدقسمتی سے ذاتی مفادات اتنے گہرے ہوگئے ہیں کہ انکی خاطر دوسروں کے ساتھ ساتھ ملک کے نقصان کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی۔ چنانچہ جس پانچ جولائی سے آئندہ کیلئے بچنے کا کوئی تفکّر اور قومی سیاست میں یکسوئی ہونی چاہیے تھی اس پانچ جولائی کو آج بھی اپنے اپنے فائدے اور اپنے اپنے نقصان کے تناظر میں جانچا جائے گا تو اس میں اچنبھے والی کوئی بات نہیں ہوگی۔ ہمارے بھائی اعجازالحق (فرزندِ ضیاء الحق) خود ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور اپنے والد کے انتقال کے بعد سے اب تک قومی سیاست میں اپنا کردار سنبھالے ہوئے ہیں مگر اپنے والد مرحوم کے پانچ جولائی 1977ء کے ’’اپریشن فیئر پلے‘‘ کے جواز میں انہیں قومی سیاست اور سیاست دانوں کو رگیدنے اور جمہوریت کا لفظ بطور گالی استعمال کرنے کی ہر کسی کی ’’ادا‘‘ بھلی محسوس ہوتی ہے۔ کچھ ایسی ہی قبیل ہمارے آج کے اہل قلم میں بھی موجود ہے جنہیں میاں نوازشریف کیخلاف جنرل پرویز مشرف کا 12 اکتوبر 1999ء کا ماورائے آئین اقدام تو زہر لگتا ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت کیخلاف جنرل ضیاء الحق کے پانچ جولائی 1977ء والے ماورائے آئین اقدام کیلئے وہ رطب اللسان نظر آتے ہیں اور اسے ’’یوم نجات‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس لئے جب تک ہم اپنے ذاتی اور قومی مفادات میں امتیاز نہیں کر پائیں گے تب تک ہماری ذات اور قومی سیاست و ترجیحات میں دوعملی ہمارا خاصہ بنی رہے گی۔
ہمارے ایک ’’مافوق الفطرت‘‘ سیاست کار کی جانب سے’’ کسی‘‘ کو نیوٹرل نہ رہنے کی انگیخت اور پھر مایوس ہو کر گالم گلوچ اور اسی طرح مخلوط حکومت کا تاج سجائے بیٹھے قدکاٹھ والے سیاست دانوں کی طرف سے اس ’’کسی‘‘ کے لئے ہونیوالی حوصلہ افزائی کے باوجود ماورائے آئین اقدام والوں نے خود آئین کے تحفظ و دفاع کی ٹھان لی ہے اور وہ سسٹم کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے ہیں تو بھائی صاحب! اب 47 سال قبل والے پانچ جولائی سے کچھ سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہی کیا رہ گئی ہے۔ اور آپ تو خود ایک دوسرے کے اتحادی بن کر بھی پانچ جولائی کی کسی مشترکہ تقریب کی اب بھی ضرورت محسوس نہیں کر رہے تو آپ پانچ جولائی اور 12 اکتوبر کا اعادہ نہ ہونے دینے کا عزم کیونکر باندھ پائیں گے۔
میں نے دو سال قبل اسی تناظر میں سابق وزیرمملکت علی محمد خان کا نام لئے بغیر انکے ان الفاظ پر فکرمندی کا اظہار کیا تھا کہ ’’اگر خان صاحب مائنس ہوئے تو پھر جمہوریت بھی مائنس ہو جائیگی‘‘۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کی سابق کابینہ کے ایک ’’معتبر‘‘ رکن غلام سرور خان کے بیان نے مجھے عملاً لڑکھڑا دیا کیونکہ اس سابق وزیر موصوف نے جمہوریت کو وہی گالی دی تھی جو پانچ جولائی 1977ء کے اقدام کا دفاع کرنیوالے ہمارے معتبرین و معززین اس اقدام کے جواز میں جمہوریت کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ موصوف نے کراچی ایئرکریش کی انکوائری رپورٹ میں ’’گل افشانیاں‘‘ کرکے بیرونی دنیا کیلئے پی آئی اے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کو بھی نامعتبر بنایا اور مزید گل افشانی یہ کی کہ پی آئی اے اور سٹیل مل 2008ء تک تو منافع میں چل رہی تھیں‘ ان دونوں کو جمہوریت نے تباہ کیا۔ یعنی مشرف کے ماورائے آئین دور اقتدار تک ان دونوں قومی اداروں میں بھی اور اسی سوچ کے تحت دیگر تمام ملکی اور قومی معاملات میں بھی سب اچھا تھا‘ بیڑہ غرق تو اسکے بعد آنیوالی جمہوریتوں نے کیا ہے۔ حضوروالا! اسی بیڑہ غرق جمہوریت کا آپ پھل کھاتے رہے ہیں۔ آپ جس درخت کی گھنی چھاؤں میں بیٹھے ہوں، اسی کو آرے چلا کر کاٹنے کے درپے ہوں تو ایسا کسی ماورائے آئین اقتدار سے بھی شیرینی حاصل کرنا ہی مقصود ہو سکتا ہے۔
جمہوریت کو گالی دے کر راندہ درگاہ بنانے والی ایسی ’’پوِتر‘‘ سوچ کی جھلک محمد رضوان نامی کسی شخص کی موصولہ ای میل میں بھی نظر آئی تھی جس میں میرے ایک کالم میں سسٹم کے حوالے سے میرے الفاظ کے چناؤ کی بھی پاسداری نہ کی گئی اور میری ناکردہ گناہی بھی میرے کھاتے میں ڈال دی گئی۔ بذریعہ ای میل مجھ سے مخاطب ہونیوالے یہ صاحب پپٹ تھے یا پپٹ ساز‘ اس کا بھی مجھے کچھ نہ کچھ اندازہ ہوگیا تھا مگر ماورائے آئین اقدام کے جواز میں انہوں نے جس لب و لہجے میں جمہوریت اور آئین کی بھد اڑائی ‘ اس سے باہم دست و گریباں ہمارے آج کے حکومتی اور اپوزیشن قائدین کو بھی جمہوریت کو مائنس کرنے کیلئے پکائی جانیوالی کھچڑیوں کا ادراک ہونا چاہیے۔ ای میل بھجوانے والے صاحب کے کیا "ارشادات" تھے، آپ ذرا ملاحظہ فرمایئے:
’’تو بھائی صاحب! آپ یہ بتانا پسند کرینگے کہ ماورائے آئین اقدام والوں میں کہاں خرابی ہے۔ اور کیا انسان کے پلید ہاتھوں کا لکھا ناپاک آئین کوئی آسمانی صحیفہ ہے جس کی تکریم تم جیسے لوگ قران سے زیادہ کرتے ہو۔ لعنت ہے ایسی جمہوریت اور آئین پر جس سے خلقِ خدا عذاب میں مبتلا ہو۔ جب پولیس عوام کے پیسے پر پل کر عوام کو جوتے مارے اور ’’سیاہ ست دان‘‘ عوام کے پیسے سے تنخواہیں اور مراعات لیں اور عوام کو غلام بنالیں تو ایسے نظام کو بھی آگ لگا دینی چاہیے۔ قران میں کہیں نہیں لکھا کہ حکومت سویلین کا کام ہے اور فوج پر حرام ہے۔ یہ تم جیسے مغرب پرستوں کے فلسفے ہیں جس نے خلق خدا کو عذاب میں ڈال رکھا ہے۔‘‘
ارے! میں نے تو خود اپنے کالم میں اس رائے کا اظہار کیا تھاکہ آئین کے ماتحت رائج پارلیمانی جمہوری نظام کوئی حرف آخر نہیں‘ نہ صحیفہ آسمانی ہے کہ اس میں زیر زبرکا بھی ردوبدل نہیں ہو سکتا۔ میرا تجسس صرف ماورائے آئین اقدام اور اقتدار کے حوالے سے ہوتا ہے۔ میں تو خود اس سوچ کا حامی و قائل ہوں کہ اگر جمہوری نظام جمہور تک براہ راست اپنے ثمرات نہیں پہنچا پا رہا تو قاعدے قانون کے تحت ایسا کوئی بھی نظام لے آئیں جس سے ملک اور قوم کیلئے بہتری کی گنجائش نکل سکتی ہو۔ مگر اس کیلئے ماورائے آئین اقدام کے بجائے آئینی طریق کار اختیار کرلیں۔ ترکی میں کنعان ایورن کے دور میں آئین کے تحت ہی فوج کی شراکت اقتدار کی گنجائش نکالی گئی تھی۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کے سابقہ دور میں اس سوچ کا کیا حشر ہوا مگر ہماری دوطرفہ رطب اللسانی کی فضا تو موجودہ اسمبلی کے ذریعے بھی اسی طرح آئین میں شراکت اقتدار کی گنجائش نکلوا سکتی ہے جیسے آرمی چیف کے منصب کی میعاد پر پلک جھپکتے مفاہمت کرکے آئینی ترمیم منظور کرالی گئی تھی۔ اسی طرح جو بھی سسٹم لایا جائے‘ کم از کم قاعدے قانون کے مطابق اور آئین کے ماتحت تو لایا جائے۔ اگر یہ آئین صحیفہ آسمانی ہوتا تو کیا اسکی کسی شق میں ہلکے سے ردوبدل کی گنجائش بھی نکل سکتی تھی۔ اگر آئین کے ذریعے کسی ریاستی ادارے کیلئے شراکت اقتدار یا مکمل اقتدار کی بھی اجازت لے لی جائے تو کم از کم یہ اقدام قاعدے قانون کے مطابق تو ہوگا جس کے جواز کیلئے کسی رطب اللسان سے جمہوریت اور آئین کی مٹی پلید کرانے کی ضرورت بھی نہیں پڑیگی۔ میرا تو اتنا سا ہی تجسس ہے کہ مروجہ آئین اور قاعدے قانون سے ماورا کوئی اقدام نہیں ہونا چاہیے۔ آج کا پانچ جولائی مخلوط حکومت میں باہم شیروشکر ہوئے بیٹھے پانچ جولائی اور 12 اکتوبر والے ’’مظلومین‘‘ کو یہی پیغام دے رہا ہے کہ اس شیروشکر کو سلطانیِ جمہور کے ثمرات بنا کر عوام کیلئے بھی شیرینی بنادیں ورنہ عوام کے آج کے غصے کی بنیاد پر ماورائے آئین اقدام والے زلزلے کے جھٹکے آپ کا مقدر بنتے ہی رہیں گے۔
وماعلیناالالبلاغ۔