پاکستانی ہائپر میڈیا اور ففتھ کالمنسٹ

پاکستان میں آجکل امریکی مْفکر ڈینیئل مرکی کی کتاب No Exit from Pakistan: America's Tortured Relationship with Isalmabad.  کا بہت شہرہ ہے جس میں وہ یہ بتاتا ہے کہ ’’امریکہ نے سن 1948ء میں یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان کو امریکہ کبھی طاقتور مْلک نہیں بننے دے گا۔‘‘ اسی طرح وہ سر عام اپنی کتاب میں وہ طریقے اور ہتھکنڈے بھی بتاتا ہے کہ امریکہ کس طرح 75سال سے پاکستان کو کنٹرول (پاکستانی قیادت کے ذریعے اور جدید میڈیا کے ذریعے) کررہا ہے۔ اسی طرح ایک نام نہاد جنوبی ایشیاء کی سیاسیات کے امریکی ماہر اسٹیفن کوہن (جس نے پاکستان پر یکے بعد دیگرے تین کتابیں لکھیں) کی تینوں کتابوں میں جن چند باتوں پر زور ہے اْن میں ایک یہ کہ پاکستان میں قائداعظم کے افکار کی بجائے علامہ اقبال کے تصورات کی پذیرائی زیادہ کیوں ہے؟ کیونکہ کوہن پاکستان میں جمہوریت اور ہائپر آزادی کا خواہاں ہے اور پاکستان کو مغربی نظریات اور افکار کے مطابق تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ 
اسی طرح اسٹیفن کوہن نے ایک اور بھی دلچسپ بات یہ لکھی کہ پاک فوج کے ساتھ ملکر امریکہ نے بین الاقوامی سطح پر بہت ساریCalendestine یعنی "خْفیہ مکارانہ "گیمز کھیلی ہیں لیکن اب وہ وقت گْزر گیا ہے گویا پاک فوج کی امریکہ کو اب کوئی ضرروت نہیں۔ ان مذکورہ مْفکرین کے بعد ایک اور امریکی قابلِ ذکر مْفکر بروس رِڈل ہے جس نے پاکستان پر دو کتابیں اور درجنوں مضامین لکھے ہیں، تینوں کی کتابوں کا مجموعہ ویسے تو پاکستان کے ہر شخص کو پڑھنا چاہیئے اور اگر ممکن نہ ہوتو کم از کم ارباب اختیار اور پاکستان کو چلانے والی عسکری اور سیاسی قیادت کو ضرور پڑھنا چاہیئے۔ ان تینوں کتابوں میں پاک امریکہ تعلقات کی مکمل ہسٹری ہے لیکن مصنفین نے اپنے قارئین کو نہایت ہی مہارت اور چالاکی کے ساتھ اس لائن پر چڑھانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں ساری بْرائیوں کی جڑ پاک فوج ہی ہے کیونکہ یہی کشمیر کا مسئلہ اْٹھاتی ہے، یہی دو قومی نظریے کی بات کرتی ہے اور خطے میں دہشت گردی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی پاک فوج ہے۔
پاک فوج کی موجودہ پالیسی اور پاکستان میں موجودہ انتشار اور سیاسی اور معاشی عدمِ استحکام کو سمجھنے کے لیئے ضروری ہے کہ پہلے یہ سمجھا جائے کہ "فرسٹ جنریشن وار فیئر" میں انسان ایک دوسرے سے ڈنڈے (سوٹے) ، اینٹ اور پتھر، تیر، تلوار، نیز ے، بھالے، برچھی،  چْھری، چاقو اور منجنیق (پتھر اور آگ کے گولے پھینکنے والی پْرانی توپ) کو جنگ میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اسکے بعد دوسرا دور آیا کہ جب چین نے گن پاؤڈر ایجاد کیا اور بندوق بنالی۔ تیسرے دور میں ٹینک، توپ، فوجی گاڑیاں اور جنگی ہوائی اور بحری جہاز بنائے گئے۔ چوتھا دور ایٹمی ، کیمیائی اور بائیولوجیکل ہتھیاروں کا دور تھا اور پانچواں اور موجودہ دور (جنریشن) میڈیا کے ذریعے انسانوں کے دل و دماغ اور ایکشنز کنٹرول کرنے پر مشتمل ہے۔ پاکستان بلا شْبہ اپنے قیام سے لیکر آج تک حالتِ جنگ میں ہے اور نائن الیون کے بعد سے پاکستان پر ففتھ جنریشن طرز کے حملے جاری ہیں۔ 
پہلے دور کو چھوڑ کر عصر حاضر میں جنگ میں چاروں جنریشن کے ہتھیاروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ آخری دور میں ایک عنصر بلیک میلنگ اور Exploitation کا استعمال بھی عام ہے۔ عصر حاضر میں سب سے خطرناک صورتحال اْس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان کو ایک ہتھیار کے طور پرا ستعمال کیا جاتا جس کی مثال خود کْش بمباروں سے سمجھ آسکتی ہے۔ جس کو کنٹرول کیا جارہا ہوتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں ایک صحیح کام کررہا ہوں لیکن اْسے علم نہیں ہوتا کہ ففتھ کالمنسٹ (کسی بھی مْلک کی صفوں میں چْھپے دْشمن کے ایجنٹ) کس طرح اْسے گْمراہ کرکے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اخلاقی بھی سمجھتا ہے، حق پر بھی سمجھتا ہے اور اپنے افکار جو اْسے فیڈ کیئے گئے ہوتے ہیں اْن کی خاطر جان دینے کے لیئے بھی تیار ہوتا ہے جیسا کہ ایک خود کْش بمبار۔ دْشمن کے ایجنٹوں کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو شعوری طور پر جانتے ہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں لیکن ففتھ جنریشن کا مہرہ یہ بھی نہیں جانتا۔پاک فوج پر آج امریکہ انگلیاں کیوں تانے ہوئے ہے اور کس طرح پاکستانی قوم کو پاک فوج کے خلاف کیا گیا ہے ۔ اس میں محرک بظاہر پاک فوج کے حالیہ اقدامات ہیں اور اس میں سب سے بڑا مہرہ عمران خان کی ذات بنی ہے حالانکہ مْحب وطن فوج پہلے بھی پاکستان کی صفوں میں چْھپی کالی بھیڑوں کے ساتھ پچھتر سال سے جنگ لڑتی آئی ہے۔ عمران خان بین الاقوامی سیاسیات کا اتنا ماہر نہیں جتنا پاک فوج کے درمیانے درجے کا ایک عام افسر ہوتا ہے کیونکہ پاک فوج کے افسران کو ملٹری اکیڈمی کاکول سےCurrent Affairs اور International Relations کامضمون باقاعدہ طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ چند سال پہلے پاکستان میں ایک اصطلاع (ففتھ جنریشن وار) زبانِ زد پر عام تھی اور یہ ففتھ جنریشن وار کیا ہے۔
پاک فوج امریکی عزائم کو بہت پہلے ہی بھانپ چْکی تھی کہ اب پاکستان کی امریکہ کو ضرورت نہیں لیکن پاکستان کو امریکہ ایسے چھوڑے گا بھی نہیں۔ جنرل مْشرف کو پتا تھا کہ امریکہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کی جنگ کی آڑ میں کیا نیا کھیل رچا رہا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ یہ سب کْچھ جانتے ہوئے بھی پاک فوج امریکہ کی کْھل کر مخالفت کیوں نہیں کرتی؟ بلکہ امریکہ کے ساتھ اْلٹا تعاون کیوں کرتی ہے؟ یہاں یہ بات اچھے طریقہ سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بین الاقوامی سطح پر موجودہ نظام میں ایک تبدیلی آررہی ہے جس میں چین جیسا طاقتور مْلک بھی امریکہ سے ڈائریکٹ جنگ کرنے کی بجائے امریکہ کے کمزور ہونے کا مْنتظر ہے اور امریکہ کی طاقت اور پوری دْنیا پر اس کا کنٹرول روز بروز کمزور ہوتا جارہا ہے۔ امریکی قومی ٹی وی سی این این کے معروف اینکر فرید زکریا نے تو آج سے بیس سال پہلے ہی اس موضوع پر ایک کتاب Post American Worldبھی لکھی تھی۔ اسی طرح ایک اور معروف امریکی مْفکر میئر شیمر نے بھی اپنے کتاب میں اعتراف کیا امریکہ اب بہت کمزور ہوچکا ہے تاہم اسے چین کے مقابلے سے دستبردار نہیں ہونا چاہیئے۔ پاکستانی عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ کو چین کا مقابلہ کرنے اور جنوبی ایشیائی کا Heriarchial آرڈر درست کرنے کیلئے ایک Hegemon (سرپرست) کی ضرورت تھی جس کیلئے اْس نے بھارت کو مضبوط کرنے اور پاکستان کو کمزور کرنے کی لگ بھگ بیس سال سے پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اور اس پالیسی کا سارا مرکز پاک بھارت تعلقات اور اس توازن کو بھارت کے حق میں تبدیلی کرنا ہے چنانچہ پاک فوج امریکہ کا ایک قدرتی ٹارگٹ ہے جس سے پاکستانی عوام بے خبر ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کے کہ پاکستان میں اس سارے کھیل میں مینجمنٹ، کرپشن اور اقرباء پروری کی تمام خرابیوں سے پیدا شْدہ محرومی پیشِ منظر ہے لیکن پسِ چلمن ایجنڈ کْچھ اور ہے۔
پاکستانی المیہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام اس بین الاقوامی سیاسی گیم اور پاک فوج کی پالیسی کو ملاکر پڑھ بھی نہیں سکتے اور سمجھ بھی نہیں سکتے اور اس پر مزید میڈیا میں خریدے ہوئے شعور اور کْچھ غیر شعوری لوگ (ایجنٹس) یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ "پاک فوج پاکستان دْشمن اور عمران خان ایک مسیحا ہے۔" اگر عمران خان حقیقی مسیحا یا انقالابی لیڈر ہوتا تو اْس کو مغربی طرز کی جمہوریت کا نعرہ ہر گز نہیں لگانا چاہیئے کیونکہ مغربی ہائپر لبرٹی اور مادر پدر آزاد سوشیالوجی اسلام مخالف ہیں اور اسی طرح اگر عمران خان مغرب کے مخالف ہے تو اْسے سب سے پہلے سْودی نظام جس کے خلاف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اعلان جنگ ہے پر کام کرنا چاہیئے تھا۔ 
حرف آخر یہ ہے کہ اگر پاکستانی سیاسی و عسکری قائدین میں امریکہ کا کوئی شعوری ایجنٹ ہوتا تو صدر ایوب اور بھٹو کے کتابوں کے ٹائٹل وہ نہ ہوتے جو ہمیں تاریخ میں ملتے ہیں اور نہ ہی ضیاء الحق کا طیارہ گرایا جاتا۔ پاکستانی عوام کو آپس میں اتحاد و تدبر اور اپنے اداروں اور قیادت پر اعتماد کی ضرورت ہے۔ جہاں تک امریکی مصنفین کی پاکستان پر لکھی گئی کتابوں میں معلومات ہیں تو یہ بہت مکاری سے ایسے موقعہ پر زیر بحث لائی گئی ہیں جب پاکستان میں پاک فوج کیخلاف میڈیا (بالخصوص سوشل میڈیا) ایک مصنوعی غم و غصے کا ماحول پیدا ہوچْکا ہے جس کا شکار سب سے زیادہ یوتھ نظر آتی ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ یہ شعور نہیں یہ وہ گْمراہی ہے جسے غیر شعوری ایجنٹس کے دماغ میں ایسے راسخ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مذہبی و سیاسی، نظریات کو ٹھیک اور باقی سب کو غلط سمجھ رہے ہیں لہذا وہ سمجھداری سے کام لینے کی بجائے خود کْش بمبار کی طرح بین الاقوامی پراپیگنڈا اور اْسکے مکارانہ پروگرام کے فریب میں آچکے ہیں۔ 

میجر(ر) ساجد مسعود صادق 

ای پیپر دی نیشن