جمعۃ المبارک، 28  ذوالحج   ،    1445ھ،5 جولائی  2024ء

چین کو گدھوں کی کھالوں کے بعد اب گوشت ایکسپورٹ کرنے کی تیاریاں۔
یہ ایک بڑی اچھی پیش رفت ہے۔ اس سے ملکی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ گدھوں کی کھال کے ساتھ ان کا گوشت بھی چین والے اچھے داموں خرید لیں گے۔ 
ویسے بھی پاکستان میں گدھوں کی کمی نہیں ہے۔ ا یک ڈ ھونڈو تو ملتے ہیں ہزاروں۔ اب تو حکومت کی طرف سے بھی گدھوں کی فارمنگ کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے یعنی گدھوں کی افزائش مزید بڑھ جائے گی اور ہماری معیشت کا بڑا بوجھ ہی گدھے اٹھائیں گے۔ ان کی ایکسپورٹ پر بھی بقول حکومت کوئی پابندی نہیں ہے۔ امید ہے اب پاکستان میں گدھوں کی فارمنگ بھی ایک مقبول صنعت بن جائے گی۔ اب چاول ، کپاس، گندم اور گنے کی فصلوں کی ایکسپورٹ کا دور پرانا ہو گیا جو کبھی دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان تھا۔ اب دور بدل گیا ہے۔ اس لیے ایکسپورٹ بھی بدل گئی ہے۔ اگر چین کے ساتھ گدھوں کی کھالیں اور گوشت کی تجارت کامیاب رہی تو کئی اور ممالک جن میں فلپائن ، تھائی لینڈ، ہانگ کانگ ، سنگاپور وغیرہ شامل ہیں۔ وہاں بھی گدھوں کے گوشت کی بڑی مانگ ہے وہاں بھی پاکستان کو بڑی مارکیٹ حاصل ہو جائے گی۔ یوں بہت سے پاکستانیوں کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ویسے بھی رپورٹ کے مطابق پاکستان گدھوں کی افزائش میں خودکفیل ہے اور سالانہ ان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے تو پھر دیر کیسی۔ اب ہمیں اس منافع بخش کاروبار میں دلچسپی لینا ہو گی اور ایمانداری کے ساتھ اس میدان میں آگے بڑھ کر کامیابی کی نئی منزلیں طے کرنا ہوں گی۔ ہم کیسے احمق لوگ ہیں جو آج تک ان گدھوں کی قدر و قیمت سے ناواقف رہے۔ چلو دیر آید درست آید۔ اب پتہ چل گیا ہے تو دیر نہیں کرنی چاہیے۔ 
٭٭٭٭٭
چاہت فتح علی کو 18 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس۔
 ہمارے عجوبہ روزگار مہربانوں میں سے ایک یہ نئی دریافت چاہت فتح علی خان بھی ہیں جن سے بس ایک اچھا کام یہ ہوا ہے کہ ان کی بے سری گلوکاری کی وجہ سے بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کلاسیکل موسیقی سے دستبردار ہو گئی ہیں کیونکہ وہ اس دردسر میں پڑنے سے انکاری ہیں اور انہوں نے جدید و قدیم موسیقی کے امتزاج سے توبہ کر لی ہے۔ مگر عام لوگوں کی یادداشت کا کیا کیا جائے۔ وہ موسیقی کے ساتھ ہونے والے ہر ظلم کو بھی ایک نیا تجربہ سمجھ کر برداشت کرتے ہیں اور اس پر واہ واہ کے ڈونگرے بھی برساتے ہیں۔ چنانچہ انہی سْر تال سے بے بہرہ لوگوں نے چاہت کو بھی سر پر چڑھا لیا اور اس کی چاہت میں مبتلا ہو گئے۔ اس کے بعد کرنا یہ ہوا کہ ’’اکھ لڑی بدو بدی‘‘ نے جس طرح اپنے دور میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے تھے ایک بار پھر چاہت کی وجہ سے لوگوں میں مقبول ہوا، ملک و بیرون ملک گلوکاروں نے چاہت کی طرح اس فلمی گیت کو اپنے اپنے انداز میں گا کر مزید مقبول بنا دیا۔ یہ گانا تو مقبول ہوا مگر اس کے اثرات چاہت فتح علی خان پر اچھے نہیں پڑے۔ ان کو سرقہ کا مرتکب قرار دیا گیا اور یوٹیوب نے یہ نغمہ ان کے نام سے ہٹا دیا کیونکہ یہ ملکہ ترنم نور جہاں کا گایا لافانی گیت ہے۔ اب اس کے ساتھ ایک اور مسئلے نے بھی چاہت کا گھر تاڑ لیا ہے۔ نصرت فتح علی خان کے اہلخانہ کی طرف سے چاہت کو قانونی نوٹس دیا گیا ہے کہ وہ غلط طور پر خود کو نصرت فتح علی خان کا رشتہ دار ظاہر نہ کرے۔ اب دیکھنا ہے اس مسئلے سے وہ کس طرح اپنی جان بچاتے ہیں کیونکہ قیصر منیر نے نصرت فتح علی شہرت کو نقصان پہنچانے،ان کے انداز میں گانے پر چاہت کو 18 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھیجا ہے۔ یہ تو چیونٹی کے پہاڑ تلے  آنے کے مترادف ہے۔ 
٭٭٭٭٭
شیرافضل مروت اور فواد چوہدری میں لفظی گولہ باری۔
 فواد چودھری پہلے کیا چپ رہتے تھے جو اب خاموش بیٹھیں گے۔ اب اچانک انہوں نے پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کی جس طرح کلاس لی اس کا جواب قیادت نے تو یہ دیا کہ وہ ذرا تحمل سے کام لیں سب کو نہ رگیدیں۔ مگر شیر افضل مروت نے حسب عادت وہی زبان استعمال کی جس کی ان کو عادت ہے اور وہ اسی کی بدولت بڑے رہنما نہ سہی عوامی رہنما ضرور بن گئے ہیں۔ انہوں نے فواد چودھری کے پولیس کے تعاقب  سے بھاگنے والے واقعے کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اس مشکل وقت میں ہم ڈٹے رہے مگر فواد ہتھنی کی طرح دوڑتے اور ہانپتے ہوئے بھاگے تھے۔ اب اس کے جواب میں فواد نے کہا کہ کسی کی جسمانی ساخت کے حوالے سے ایسی باتیں کر کے مروت نے ثابت کیا ہے کہ ان کی ذہنی ساخت ایک ڈرائیور کی سطح کی ہے۔ یوں اب بات ذاتیات تک جا پہنچی ہے۔ پہلے  ہی پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات کے باعث بانی تحریک پریشان ہیں۔ اوپر سے یہ پرانے اور نئے پارٹی ممبران کی چپقلش نیا رنگ لا رہی ہے۔ شاید نئے لوگوں کو ڈر ہے کہ پرانے آئے تو ان کی پوزیشن میں فرق آئے گا۔ 
اطلاع یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی کے بانی نے دونوں گروپوں کو ملاقات کے لیے بلایا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ ملاقات کیا رنگ لاتی ہے۔ فی الحال تو ’’رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد‘‘ والی کوئی صورتحال سامنے آنے کی توقع نہیں کیونکہ جیل میں بند قیدی کو بھی اصل حقائق سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ وہ خود بھی اپنی رہائی کے سلسلے میں پریشان ہو کر عدالتوں سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
سیالکوٹ میں اوباش نے بچے پر کتا چھوڑ دیا ، لاہور میں دکاندار کا بچے پر وحشیانہ تشدد۔
 ہمارے معاشرے میں برداشت اور نرمی جس تیزی سے اٹھ رہی ہے اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ انسان نما درندوں کی پہنچ سے نہ کوئی انسان محفوظ ہے نہ کوئی جانور، حتیٰ کہ معصوم بچے بھی ان درندوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں۔ بچے کو تو دیکھ کر ہی ترس آتا ہے پیار آتا ہے ان کی چھوٹی موٹی غلطیاں درگزر کر دی جاتی ہیں مگر نجانے یہ کیا ہو رہا ہے۔ مدرسہ، سکول ، دکان گھر، ہر جگہ کام کرنے والے ہوں یا دیگر بچے ان کو برے سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بے رحمی سے مارا پیٹا جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ قانوناً جرم ہے۔ خود ہمارے مذہب اسلام میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے۔ مگر کیا مجال ہے جو کوئی خدا سے اور قانون سے ڈرتا ہو۔ سیالکوٹ میں ایک اوباش نے گلی میں کھیلتے ہوئے 10 سالہ بچے پر کتا چھوڑ دیا جس کے کاٹنے سے وہ بچہ زخمی ہو گیا۔ اسی طرح لاہور میں ایک دکاندار نے چوری کے شبہ میں انتہاء￿  ہی کر دی۔ 9 سالہ بچے کو بری طرح زد و کوب کر کے اس کا منہ کالا کر کے اسے برہنہ حالت میں گھمایا۔ اس دوران بچہ تکلیف سے، درد سے روتا رہا مگر اس درندے کو ترس نہیں آیا۔ کیا یہ انسان کہلانے کے قابل ہے۔اس  سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ درجنوں افراد یہ ظلم دیکھتے رہے اور اس ظالم کو روکنے کی بجائے ویڈیو بناتے رہے۔ کیا یہ سب کچھ کرتے ہوئے ان ظالموں کو یہ خیال نہیں آیا کہ ان کیاپنے بھی بچے ہیں۔ اب یہ بچے ساری زندگی اس حرکت کو نہیں بھولیں گے۔ اب ہم یورپ میں تو نہیں رہتے کہ ایسے بچوں کا جسمانی اور نفسیاتی علاج کرا کے انہیں تندرست کریں مگر ہمارے ملک میں ایسا ظلم کرنے والوں کے لیے سزائیں تو ضرور ہیں۔ چلیں پھر بسم اللہ کر کے ان سزاؤں پر عمل کریں اور ان ظالموں کی رسی کھینچی جائے۔ یہ تو صرف دو واقعات ہیں ایسے سینکڑوں واقعات ملک بھر میں رونما ہوتے ہیں جو رپورٹ نہیں ہوتے۔ سینکڑوں بچوں کا بچپن ان تاریک راہوں میں کھو جاتا ہے اور کوئی مداوا نہیں کرپاتا۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن