دہشت گردی کیخلاف حکومتی ریاستی اداروں اور قیادتوں کے تفکر و تدبر کے باوجود ملک میں دہشت گردی کے ناسور کے آگے مکمل بند نہیں باندھا جا سکا اور گزشتہ روز خیبر پی کے مالاکنڈ ڈویڑن کے ضلع باجوڑ میں سابق سینیٹر ہدایت اللہ سمیت پانچ افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس واردات میں دہشت گردوں نے ہدایت اللہ کو ٹارگٹ کرکے حملہ کیا جس کے نتیجہ میں انکے علاوہ انکے ساتھی ملک عرفان‘ نذر دین‘ یارمحمد اور سمیع الرحمان بھی شہید ہو گئے۔ دھماکے کے نتیجہ میں ٹارگٹ کی جانیوالی گاڑی مکمل تباہ ہو گئی اور دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی۔ اس وقوعہ کے حوالے سے آر پی او محمد علی گنڈاپور کا کہنا ہے کہ ہدایت اللہ کی گاڑی کو ڈمہ ڈولہ میں ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجہ میں گاڑی میں موجود پانچوں افراد جاں بحق ہو گئے۔ وقوعہ کے بعد پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور لاشیں ہسپتال منتقل کرکے وقوعہ کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ وقوعہ کے روز سابق سینیٹر ہدایت اللہ اپنے بھتیجے اور صوبائی حلقہ پی کے 22 کے آزاد امیدوار نجیب اللہ کی الیکشن مہم کیلئے ڈمہ ڈولہ گئے تھے۔ وہ سابق گورنر کے پی کے شوکت اللہ کے بھائی اور سابق ایم این اے بسم اللہ خان کے بیٹے تھے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات سے قبل دہشت گردی کی جاری وارداتوں کو جواز بنا کر مولانا فضل الرحمان نے انتخابات موخر کرانے کی باقاعدہ مہم شروع کی جبکہ اسی بنیاد پر سینٹ میں سینیٹروں کے آزاد گروپ کی جانب سے پیش کی گئی ایک قرارداد بھی منظور کی گئی۔ سینیٹر ہدایت اللہ اس قرارداد کے محرکین میں شامل تھے۔ صدر آصف علی زرداری‘ وزیراعظم شہبازشریف‘ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری‘ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق‘ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے باجوڑ دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور اس دہشت گردی میں شہید ہونیوالوں کے لواحقین کیلئے صبر جمیل اور شہداء کیلئے بلندی درجات کی دعا کی۔
گزشتہ روز دہشت گردی کی دوسری واردات کچے کے علاقے میں قائم پولیس چیک پوسٹ پر حملے کی صورت میں ہوئی‘ ڈاکوئوں نے اس چیک پوسٹ پر بے دریغ فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں دو پولیس اہلکار شہید ہو گئے جبکہ جوابی فائرنگ میں ایک حملہ آور بھی مارا گیا۔ ڈاکو فائرنگ کرتے ہوئے کچے کی طرف فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ وقوعہ کے حوالے سے ایس ایس پی بشیر بروہی کا کہنا ہے کہ پولیس کی فائرنگ سے تین ڈاکو زخمی بھی ہوئے ہیں۔ مارا جانے والا ڈاکو نظیر بھیو چھ روز قبل اغواء ہونے والے تین تاجروں کے اغواء کی واردات میں بھی شریک تھا۔ دہشت گردی کی اس واردات میں دو پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ وقوعہ کے بعد علاقے میں بھاری نفری تعینات کر دی گئی جبکہ سرچ اپریشن جاری ہے۔ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے دہشت گردی کی اس واردات کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور آئی جی سندھ کو ہدایت کی کہ وہ وقوعہ کی مفصل انکوائری کرکے اپنی رپورٹ پیش کریں۔
ملک میں گزشتہ دو دہائیوں سے جاری دہشت گردی کا کس مقصد کے تحت کیسے آغاز ہوا اور اس میں اندرون اور بیرون ملک سے کون کون ملوث ہے‘ کون اس دہشت گردی کی سرپرستی‘ فنڈزنگ اور سہولت کاری کر رہا ہے‘ اس معاملہ میں تو اب کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ یہ ناسور دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر افغانستان میں شروع کی گئی امریکی جنگ میں پاکستان کے اس وقت کے جرنیلی آمر مشرف کی جانب سے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرنے کے ردعمل میں ہی ہمارے گلے پڑا تھا جس نے 2005ء سے اب تک ہماری معیشت کو وبرباد کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ملک کی سلامتی کے تحفظ پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور ہماری قومی خارجہ پالیسی پر بھی کئی سوالیہ نشانات لگائے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت تو ہماری تاریخ کے سیاہ ابواب میں درج ہو چکی ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کی خاطر اپنے دس ہزار سے زائد جوانوں اور افسران سمیت ملک کے 80 ہزار سے زائد شہریوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے بھی اور اپنی معیشت کو کھربوں ڈالر کا نقصان پہنچا کر بھی ہم امریکہ کو خوش نہیں کر سکے جس نے ہمیشہ ہمارے کردار پر تحفظات کا اظہار اور ڈومور کے تقاضے کرکے ہمارے ساتھ عملاًدشمنوں والا سلوک کیا ہے۔ہمارے ساتھ واشنگٹن انتظامیہ کا یہ طرز عمل ہنوز جاری ہے جو پہلے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیکر کولیشن سپورٹ فنڈ سے پاکستان کی امداد روکتی رہی۔ نیٹو فورسز کو پاکستان پر حملہ کرنے کی ترغیب دینے والی کابل انتظامیہ کی سرپرستی کرتی رہی اور ہمارے ازلی دشمن بھارت کو پاکستان چین تعلقات میں رخنہ ڈالنے کیلئے ہلہ شیری دیتی رہی جبکہ اب واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے امریکی کانگرس میں قرارداد منظور کراکے اور امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے درفنطنیاں چھوڑ کر پاکستان کے سیاسی انتخابی سسٹم کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حد تو یہ ہے کہ جن طالبان سے گلوخلاصی کیلئے امریکہ نے ہم سے معاونت حاصل کی وہی طالبان آج پاکستان کے گلے پڑے ہوئے ہیں تو امریکہ کو افغانستان کی جانب سے پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کے تدارک کیلئے پاکستان کی کوششوں کا ساتھ دینے کے معاملہ میں کوئی دلچسپی ہی نظر نہیں آتی جبکہ طالبان کی کابل انتظامیہ آج عملا بھارت کی کٹھ پتلی بن کر پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکی سازشوں کا ساتھ دیتی نظر آتی ہے۔ چنانچہ بھارت کو بھی پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی سازشیں پایہ تکمیل کو پہنچانے کیلئے یہ موقع غنیمت نظر آرہا ہے جو نہ صرف خود دہشت گردی کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کیلئے خیبر پی کے اور بلوچستان میں ’’را‘‘ کا نیٹ ورک پھیلا چکا ہے بلکہ طالبان دہشت گردوں کی معاونت بھی کر رہا ہے۔
اس صورتحال میں تو ملک کی بقاء و سلامتی کی خاطر تمام قومی‘ سیاسی‘ مذہبی قیادتوں کو یکسو ہو کر دفاع وطن اور دہشت گردی کے ناسور کے مکمل خاتمہ کیلئے افواج پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور ملک کی سلامتی کیخلاف کسی بھی اندرونی و بیرونی سازش کو پنپنے نہیں دینا چاہیے مگر بدقسمتی سے ہماری بعض سیاسی‘ مذہبی قیادتوں کے ذاتی مفادات قومی مفادات پر حاوی ہوجاتے ہیں اور وہ ملک کی ادارہ جاتی بالخصوص عسکری قیادتوں کو نیچا دکھانے کیلئے ’’خدائی خدمت گار‘‘ کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔
دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کیلئے قومی ایپکس کمیٹی کے ماتحت ملک کی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے اپریشن ضرب عضب اور اپریشن ردالفساد میں توسیع کرتے ہوئے اپریشن عزم استحکام کا فیصلہ کیا تو اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کی جانب سے اپنے تحفظات کے اظہار کیلئے زمین و آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیئے حالانکہ یہی مولانا فضل الرحمان دہشت گردی کے مکمل تدارک تک انتخابات ملتوی کرانے کی مہم میں بھی پیش پیش تھے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گردوں کو نکیل ڈال کر ملک میں مستقل بنیادوں پر امن و امان بحال کرنا ہی ہماری آج کی بنیادی ضرورت ہے جس کیلئے ہماری سکیورٹی فورسز جانوں کے نذرانے بھی پیش کر رہی ہیں جبکہ دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر ملک میں امن و استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے نہ سی پیک کے پہلے اور دوسرے فیز کو اپریشنل کرنے کی فضا سازگار ہو سکتی ہے۔ ہمارے دشمن کی تو یہی کوشش ہے کہ ملک میں امن و استحکام پیدا نہ ہونے دیا جائے۔ اگر ہماری سیاسی اور مذہبی قیادتوں کی جانب سے دہشت گردی کے تدارک کے کسی اپریشن کی مخالفت کی جاتی ہے تو پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی بدنیتی رکھنے والے ہمارے بیرونی دشمن اور ہماری ان قیادتوں کے ایجنڈے میں کیا فرق رہ جائیگا۔