’’خلیل الرحمن قمر صاحب سے عاجزانہ گزارش‘‘

Jul 05, 2024

فاطمہ رِدا غوری

 گذشتہ چند دنوں سے جس کیفیت میں مبتلا ہوں اختصار کے ساتھ اس کا بیان کچھ یوں ہے

 آہ زعمرے کہ گذشت ایں چنیں
ایک عجیب سے تذبذب میں مبتلا ہوں، ایک سوال مسلسل ذہن و دل کو پریشان کئے ہوئے ہے بات رسوائی کی ہے لیکن حقیقت ہے کہ چند دن پہلے تک میں ایک انتہائی اہم لفظ " طاغوت" سے ناآشنا تھی ہاں البتہ طاغوت لفظ کے قبیلہ کے چچا زاد،تایا زاد ، موموں زادکئی دوسرے الفاظ سے ضرور آگاہ تھی جن سے آگاہی کی بدولت کہیں نہ کہیں طاغوت کے معنی سے بھی آگاہی حاصل تھی سابقہ کئی تحریروں میں بارہا طاغوتی طاقتوں کا  بھی تذکرہ کرتی رہی ہوں کہ یہ طاقتیں ہمیں راستے سے ہٹانے اور ہماری منزل کو دھندلا کرنے میں ہمیشہ مصروف عمل رہی ہیں طاغوتی طاقتیں جو ارتقاب جرائم میں ناجائز امور سرانجام دیتی ہیں ایسی طاقتوں سے مراد وہ قوتیں ہیں جو قانون الہی کو نہیں مانتیں ،بندگی کی حد سے تجاوز کر جاتی ہیں اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کروانے کی خواہاں ہوتی ہیں طاغوتی طاقتوں کے ان تمام مفاہیم سے ہمیں کہیں نہ کہیں لفظی یا اصطلاحی اعتبار سے آگاہی تو تھی لیکن لفظ طاغوت سے براہ راست جان پہچان نہ تھی نہ ہی کبھی اس لفظ سے پالا پڑا سو یہ سوال ہر لحظہ روح کو زخمی کر رہا ہے کہ ان تمام مفاہیم سے آشنا ہونے کے باوجود اگر میں فقط لفظ ’’طاغوت ‘‘سے ناآشنا ہوں تو کیا میں ایک ایسا’’ جاہل‘‘ انسان ہوں جس جاہل کے معنی ’’لاعلم ‘‘کے ہیں اور آیا میں اس لاعلمی کے بعد دائرہ اسلام میں شامل بھی ہوں یانعوذ باللہ خارج ہو چکی ہوں ِ؟یقین کریں اس وقت سے انتہائی شرمسار ہوں جب سے طاغوت کے معنی جاننے کو شدید لازم قرار دے دیا گیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ لازم ایک ایسی طاقت کی جانب سے قرار دیا گیا ہے جو بذات خود ایک ’’طاغوتی طاقت‘‘ کے درجہ پر فائز دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ہماری ناقص عقل کے مطابق طاغوت کے ایک معنی ’’کسی گمراہی کے سرغنہ ‘‘ کے بھی ہیں!!!
کیا ہم نے کبھی اس امر پر غور کیا ہے کہ مذہب کا حقیقی مفہوم کیا ہے ِ؟کیا یہ کوئی معمہ ہے جسے عقل انسانی حل نہیں کر سکتی  ؟کیا یہ کوئی دقیق علمی مسئلہ ہے جس کی حقیقت کا علم آج تک نہیں ہو پایا؟ 
یا یہ کوئی خیال تارو پود ہے جس کی گھتیاں سلجھائے نہیں سلجھ رہیں ؟بلا شبہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے ہمیںاشرف المخلوقات بنا کر بھیجا گیا ہے اور انسان غالبا ایک خاص عقل و شعور رکھنے والی مخلوق کا نام ہے جو اپنی ذاتی اہمیت متعین کرتی ہے عقل کا درست استعمال کرتی ہے اور دیگر مخلوقات کا احترام کرتی ہے لیکن جن الجھنوں میں ہم پڑے ہوئے ہیں جن کے پیچھے پیچھے ہم چل رہے ہیں جن گھتیوں کو سلجھانے میں ہم مصروف عمل ہیں وہ یقینا ہمارا راستہ کھوٹا کرنے کی سازش کے سوا اور کچھ نہیں 
 مرد این رہ را نشانے دیگر است
ہمارے یہاں ان دنوں ایک دوسرے کو جاہل اور جاہل سے مراد لاعلم قرار دیا جا رہا ہے جہلاء کی شرح فیصد طے کی جا رہی ہے کئی چیزوں کا علم رکھتے ہوئے فقط ایک لفظ سے لاعلمی کو جہل گردانا جا رہا ہے اس صورتحال میں مجھے فقط یہی کہنا ہے کہ میری ناقص رائے کے مطابق’’ جہل کا علم ہی علم کی پہلی منزل ہے‘‘  ایک سوال کا پیدا ہونا ہی انسانی دماغ کی نشوونما اور علم کی جانب پہلی سیڑھی ہے اور اگر آپ عالم فاضل کی حیثیت سے سوالات کا جواب دینے کے لئے موجود ہیں دوسروں کواپنی مرضی سے میسر ہیں تو آپ کا فرض بنتا ہے کہ ہر قسم کے سوال کے لئے قوت برداشت کے ساتھ ذہنی طور پر خود کو تیار کر کے بیٹھیں کیونکہ آپ کو سوالات کا جواب دینے کے لئے کسی نے دعوت دے کر نہیں بلایا البتہ جو سوالات کر رہے ہیں انہیں دعوت دی گئی ہے یقین دلایا گیا ہے کہ آئو یہاں تمھارے سوالات کے ٹھوس جوابات ملیں گے!!! سب سے اہم بات جس کا ذکر کئے بغیر تحریر نامکمل محسوس ہو رہی ہے کہ جس پروگرام کے تحت آپ اس علمی و ادبی نشست کا انعقاد کئے بیٹھے ہیں اس پروگرام کا نام آپ نے خود ہی ’’مکالمہ ‘‘رکھا ہوا ہے جس طرح اس نشست میں شامل اکثریت کو طاغو ت کے معنی لازمی معلوم ہونا چاہیے تھے اسی طرح اس نشست کے محترمین کو مکالمہ کے مفہوم و معنی اور اصول و ضوابط سے لازمی آگاہ  ہونا چاہیے تھا کہ’’ بیسویں صدی میں میخائل بافتن ،پائل فریری، مارٹن گوبر اور ڈیوڈ بوہم جیسے دانشوروں نے مکالمہ کو فلاسیفیکل صنف ماننا شروع کیا تھا اور مکالمہ کی مختلف خصوصیات پر بات کرتے ہوئے یہ طے ہوا تھا کہ مکالمہ تہذیب کے دائرہ میں رہتے ہوئے کثیر جہتی ،متحرک اور سیاق و سباق پر مبنی ایسی بات چیت کو کہا جاتا ہے جس سے مفہوم بہتر طور پر واضح کیا جا سکے " 
قوت برداشت نہ رکھتے ہوئے سوال کرنے والوں اور جواب دینے والوں کی جانب سے ٹھہرائو اور تہذیب کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے،اپنے مقام کا خیال نہ رکھتے ہوئے’’ مکالمہ ‘‘نامی اس نشست میں  جس طرح بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اس سب سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر اکثریت کو طاغوت کے مفہوم سے آگاہی نہ تھی تو سوال و جواب کی محفل سجانے والوں کو بھی مکالمہ کے لفظی و اصطلاحی مفہوم سے قطعا آگاہی نہ تھی اب اسے لاعلمی کہیں یہ کچھ اور؟  چہ معنی دارد
محترم خلیل الرحمن قمر صاحب ایک علمی و ادبی شخصیت ہیں ان کی اقدار اور روایات کی پاسداری ،سچائی باطل کے سامنے ڈٹ جانے کی صلاحیت ہمیشہ قابل قدر اور قابل مثال رہی ہے محترم کے افکار و خیالات کے ہم ہمیشہ سے قدر دان ہیں لیکن آج کی نشست میں نہایت بوجھل دل کے ساتھ گزارش ہے کہ محترم خلیل صاحب اپنے روئیے میں استقامت اور قوت برداشت میں بہتری لانے کی کوشش کریں کیونکہ آپ کے چاہنے والے آپ کی تحریروں اور آپکے الفاظ سے محبت کرنے والے نہیں چاہتے کہ ایک اچھا لکھنے، اچھا سوچنے اور اچھا بولنے والی اکثریت کی من پسند شخصیت کی قوت برداشت میں کمی کے باعث پسندیدگی میں کمی واقع ہو!!!
یہ حقیقت روزروشن کی عیاں ہے اگر اپنی حرمت چاہئے تو دوسروں کی حرمت کرنا ہونگی اسلام تلوار سے نہیں پھیلا اور نہ ہی قوت و جبر سے کوئی بھی مذہب اشاعت پذیر ہو سکتا ہے جبر سے وضع کو تو بدلا جا سکتا ہے لیکن دل و دماغ کو نہیں پھیرا جا سکتا دل کو پھیرنے کے لئے نرمی گفتار، قوت برداشت ،اطمینان نفس، طمانیت روح، محبت وشفقت ازحد ضروری ہے اور اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے آپ عملی طور پر کچھ نہیں کرتے محض دکھاتے ہیںاور یہ مقام افسوس ہے کہ انسان تو آگے بڑھتا رہے لیکن انسانیت پیچھے رہ جائے!دماغ تو ترقی کی منازل طے کرتا رہے لیکن روح تنزلی کی جانب گامزن رہے!
اس طرح کے رویوں سے بدقسمتی سے ایسا معاشرہ تشکیل پا رہا ہے جہاں رہنے والوں کے سامنے دریا جاری ہے اور پانی پینے کے لئے آزاد ہیں لیکن ان کی روح جس چیز کے لئے بے چین ہے اس کا کہیں پر بھی نام و نشان نہیں 
 دہندشوق ولے رخصت نظر نہ دہند !!!

مزیدخبریں