بجٹ کے'' روح شکن'' آفٹرشاکس

Jul 05, 2024

ضرار چوہان

وفاقی اور صوبائی بجٹ کے نفاذ سے چا رروز قبل فیصل آباد میں نوجوان کی ٹرین تلے خودکشی نے دل ودماغ پر ایسے ہتھوڑے برسائے … الالحفیظ ، الامان!! ریسکو 1122 کے مطابق مرنے والے بیروزگار نوجوان کی جیب سے 16 ہزار روپے کا بجلی بل برآمد ہوا، گویا ہوش ربا اور خوفناک بل انسانی جان لینے کا ساخشانہ بنا۔سکھر میں سکول چوکیدار کی بجلی بل اٹھائے بچوں کی طرح روتے ہوئے ویڈیو بہت سوں نے دیکھی ہوگی۔  دھائی یہ تھی کہ وہ بیس ہزار کی تنخواہ میں 26 ہزار روپے کا بل کیسے ادا کرے۔ وہ اگر چھ ہزار روپے قرض لے کر بل ادا کر بھی دے تو گھر کا ماہانہ بجٹ کیسے پورا ہوگا؟

دو روح کش مناظر دیکھنے اور سننے کے بعد ''ہمارے محبوب وزراء'' کہتے ہیں کہ معیشت کو درست سمت پر لے آئے ہیں قوم جلد مثبت اثرات سمیٹے گی وفاقی بجٹ نفاذ کے دن وفاقی حکومت نے بجلی' گیس اور پٹرول مہنگا کرکے عوام دوستی کا جو ثبوت دیا اس پر دل ابتک عش عش کررہا ہے۔یہ ہم ملک اور قوم کو کس سمت لے کر جارہے ہیں ؟ماہر اقتصادیات عبدالرشید عالم کہتے ہیں چند برس قبل ہمارے یہاں 12 کروڑ افراد ایسے تھے جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں تھی ،تین چار برس میں غربت سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اب یہ تعداد سولہ سترہ کروڑ سے تجاوزہے ایسے حالات میں بجٹ کی تیزدھار چھریاں جو کچھ تباہی لائیں گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
 2جون کوایف بی آر کی پریس ریلیز میں تفصیل دی گئی کہ 2220 اشیاء￿  پر کسٹمز ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ گھریلو استعمال کی ان اشیاء￿  کی قیمتوں میں یکدم اضافہ سے مہنگائی کی شرح تیزی سے بڑھے گی۔ حکومت نے عوامی شور اور احتجاج کے باوجود ڈیری منصوعات پر 18 فیصد ٹیکس عائد کر دیا۔ ڈیری مصنوعات میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی آئیٹم دودھ ہے۔ اب ساڑھے 7 کروڑ بچوں کے والدین کو 18 فیصد ٹیکس کے ساتھ دودھ کی خریداری کرنا پڑیگی۔غریب پہلے ہی پریشانی کی دلدل میں تھا اس مستقل اضافہ سے پریشانی مزید بڑھ جائے گی۔ یہ کیسا شاندار اور شاہکار میزاینہ ہے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں جناب وزیراعظم نے اعتراف کیا تھا کہ ''بجٹ ہم نے اور آئی ایم ایف نے مل کر بنایا ہے''
آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
سب کو یاد ہوگا 12 جون 2024 کی سہہ پہر قومی اسمبلی میں نئی حکومت کا پہلا بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ 18.777 ارب کا وفاقی میزانیہ محض بجٹ نہیں یہ سالانہ قومی پروگرام ہے جس سے ملک وقوم کی تقدیر بدلنے میں مدد ملے گی۔انہوں نے اس بات کا بھی اعا دہ کیا کہ حکومت نے تعلیم وصحت کو زیادہ اہمیت دی ان شاء￿  اللہ دونوں شعبہ وفاقی حکومت کی ترجیحات میں شامل رہیں گے۔ 28 جون کا وہ مرحلہ بھی آن پہنچا جب قومی اسمبلی نے 24.25 کا وفاقی بجٹ منظور کرلیا جس کے بعد یکم جولائی سے نیا بجٹ خوشحالی لانے کے راستے پر چل پڑے گا. یہ کیسا عوام دوست بجٹ ہے کہ طبی ماہرین چیختے رہے، دھائی دیتے رہے مگر ان کی طرف توجہ دی گئی نہ ان کی بات سنی گئی۔طب( حکمت )کو 18 فیصد ٹیکس کے بوجھ تلے لاد دیا گیا گویا نزلہ' زکام ' بخاراور جوہر شاندہ آئٹم یکم جولائی سے 18 فیصد مہنگی ہو جائیں گی۔ ادویات مہنگی کرنے کا مقصد مریضوں اور ان کے لواحقین کی زندگی میں مزید کانٹے پھیلانا ہے۔ کیا ایسے حالات میں زندگی کو  سکون اور آرام مل سکتا ہے ؟پاکستان میں حکمت طب سستا ترین علاج اور عام آدمی کی پہنچ میں ہے۔ حکمت سے وابستہ ماہرین طب اپنی سروسز سے قومی خدمات میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔ٹیکس عائد کرنے کی نئی صورت حال میں یہ شعبہ جس بوجھ تلے آگیا ہے وہاں سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی دکھائی دے رہا ہے۔ ہم وزیراعظم اور خزانہ سے التماس کرتے ہیں کہ وہ نئی صورت حال پر غور کریں یہ قوم کی صحت کا اولین مسئلہ ہے۔ایک طرف مہنگی دوا غریبوں ' محنت کشوں اور سفید پوش طبقے کو اندھیرے کا مسافر بنا رہی ہیں دوسری طرف بجلی' گیس اور پانی کے بلوں نے بھرکس نکال دیا ہے قومی اسمبلی کی بجٹ سیشن میں جھنگ سے رکن قومی اسمبلی شیخ وقاص نے وزیرخزانہ سے پوچھا کہ یہ کون سا انصاف اور عدل کا پیمانہ ہے کہ 200 یونٹ استعمال کرنے والے صارف کا بل 4800 روپے آئے اور 201 یونٹ کا بل 5000 اضافہ 9800ہو یہ ناانصافی نہیں اسے ظلم کہتے ہیں اور یاد رکھیں ظلم کرنے والے سے انسان نہیں رب کائنات انصاف کرتے ہیں…یہ درست ہے کہ ایک طرف مہنگائی نے غریب عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے تو دوسری طرف بے روزگاری  نوجوانوں کا مقدر بنی دکھائی دیتی ہے لوگ چیخ رہے ہیں چلا رہے ہیں خود ساختہ گرانی پر لیکن ان کی صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے اور یہ رو دھو کر چیخ چلا کر کسی ایسے مسیحا کے منتظر ہیں جو ان کی دل جوئی کرے جو ان کی داد رسی کرے  جو ان کا نوحہ سنے اور پرسان حال ہو۔یہ غریب اشیاء  خوردونوش کی قیمتیں دیکھ سن کر توبہ توبہ کررہے ہیں دال روٹی بھی ان کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہے اور یہ بے سدھ لاشہ بنے بیٹھے ہیں کھانے پینے کی روزمرہ کی اشیاء  ان غریب و بے نوا عوام کی قوت خرید سے باہر ہونے لگی ہیں دکاندار منہ مانگے دام دھڑا دھڑ وصول کر رہے ہیں نہ  انتظامیہ کی گرفت اور نہ پرائس کنٹرول کمیٹی کی حرکت…  عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کی ضرورت ہے حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے لئے ٹھوس اقدام کرے یہی وقت کی ضرورت ہے اور روش گار کے دروازے کھولے یہی وقت کا تقاضا ہے لوگوں کی جان مال کی حفاظت حکومت کی زمہ داری ہے بے روز گاری کا خاتمہ حکومت کا فرض ہے مہنگائی کے طوفان کو روکنا حکومت کا فرض ہے آج ہم مختلف مسائل میں گھرے ہوئے ہیں معاشی مسئلہ درد سر بنا ہوا ہے اور سیاسی عدم استحکام اور رواداری ہے ملک کی ترقی کے لئے سیاسی رواداری اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے سیاسی جماعتوں کو چائیے کہ وہ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کریں تاکہ ملک وقوم میں ترقی خوشحالی اور استحکام آئے یہ وقت کی ضرورت اور آواز ہے ملک کو مسائل سے نکالنا ہے تو سیاسی جماعتوں کو سیاسی رواداری کا مظاہرہ کرنا چائیے یہی وقت کا تقاضا ہے منہگائی غربت روٹی کپڑا اور مکان ضرورت ہے غریب عوام کی آئیے ذرا سوچیں اور غریب کی دل جوئی کریں اور اس کو مسائل کی دلدل سے نکالیں یہ ہی وی مخلص لوگ ہیں جو آپ کو زمام اقتدار تک پہنچاتے ہیں جمہوری دور میں جمہور کا رونا دھونا لمحہ فکریہ ہے!!

مزیدخبریں