تفیسر احسن الکام کتب تفیسر میں گراں قدراضافہ

Jul 05, 2024

ارشاد احمد ارشد

قرآن مجید۔۔۔۔نزول وحی کے سلسلے کی آخری کڑی ہے جو آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر آخری نبی محمدؐ پر اختتام پذیر ہوئی ہے۔ یہ کتاب ہدایت قیامت تک کیلئے بنی نوع انسان کے سماجی ‘ معاشی ‘ سیاسی ‘ نظریاتی ‘ روحانی اور نفسیاتی مسائل کا شافی و کافی حل پیش کرتی ہے۔ یہ اسلام کا جیتا جاگتا معجزہ ہے۔ قرآن مجید کی بدولت امت مسلمہ میں ایسا انقلاب آیا جس کی مثال اس سے قبل کسی امت میں نہیں ملتی۔ قرون اولیٰ میں مسلمانوں کو عروج ملا تو قرآن مجید کی بدولت اور اگر آج مسلمان زوال و ادبار کا شکار ہیں تو ترک قرآن مجید کی وجہ سے ہیں۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتا ب ہے۔ اور یہ کتاب قیامت تک کے لیے محفوظ و مامون ہے۔ اس ارفع و اعلیٰ کتاب کا اعجازیہ بھی ہے کہ یہ اپنے نزول کے و قت سے لیکر آج تک دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ 

قرآن مجید کے نزول کا مقصد یہ نہیں کہ صرف اس کی تلاوت کی جائے بلکہ اس کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کی آیات کو سمجھا جائے ‘ غورو فکر اور تدبر کیا جائے۔ اس ضمن میں جب ہم رسول ؐ اور صحابہ کرام ؓ کے مبارک طریقہ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ رسول ؐ جب صحابہ کرام ؓ کو قرآن پڑھاتے تو ایک ایک سورت پر کئی کئی سال لگ جاتے تھے۔ یہ اس لئے کہ صحابہ کرام صرف تلاوت پر ہی اکتفا نہ کرتے بلکہ سورتوں کی تفسیر و تشریح کو بھی سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ حالانکہ عربی ان کی مادری زبان تھی ان کے لئے قرآن مجید کو پڑھنا کوئی مسئلہ نہ تھا۔۔۔لیکن وہ بات جانتے تھے کہ قرآن مجید کے نزول کا مقصد تب پورا ہوتا ہے جب اسے سوچ سمجھ کر پڑھا جائے۔ 
 قرآن مجید کو توضیح و تشریح کے ساتھ پڑھنا اور اس میں تدبر و تفکر کرنے کا نام تفسیر ہے۔ رسول ؐ نے قرآن مجید کی تفسیر و تشریح کا کام خود کیا اور پھر صحابہ ‘ تابعین ‘ تبع تابعین ‘ مفسرین اور آئمہ محدثین نے یہ کام کیا۔ عربی زبان میں تفسیر کے معنی ہیں کھولنا اور اصطلاح میں علم تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن پاک کے معنی بیان کیے جائیں ‘ اس کے احکا م اور حکتموں کو کھول کر واضح کیا جائے۔ صحابہ کرامؓ میں سے قرآن مجید کے پہلے مفسر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ تھے جن کے لیے خود رسولؐ نے دعا فرمائی تھی۔ اس کے بعد آئمہ محدثین اور مفسرین نے تفسیر کے بارے میں اتنا عظیم الشان کام کیا کہ علم تفسیر مستقل علم کی صورت اختیار کر گیا۔ 
قرآن مجید کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال کے عرصہ میں سب سے زیادہ طباعت و اشاعت اس کی ہوئی ‘سب سے زیادہ زبانوں میں اس کے ترجمے کیے گئے اور کیے جارہے ہیں۔ ایسے ہی قرآن مجید کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سب سے زیادہ تفسیریں اس مقدس کتاب کی لکھی گئیں اور قیامت تک لکھی جاتی رہیں گی۔ ساڑھے چودہ سو سال کے عرصہ میں دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن مجید کی جو تفسیریں لکھی گئیں ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ ہر مفسر نے اپنی علمی بساط اور علمی استعداد کے مطابق تفسیریں لکھی ہیں۔یہ تفسیریں مختصر بھی ہیں اور کئی کئی جلدوں پر مشتمل بھی ہیں۔قرآن مجید کی تفسیروں میں بیش بہا ‘ خوبصورت اور گراں قدر اضافہ ’’ تفسیر احسن الکلام ‘‘ ہے۔یہ تفسیر 1232صفحات پر مشتمل ہے۔ اس تفسیر کی اشاعت کی سعادت دینی کتابوں کی اشاعت کے عالمی ادارہ دارالسلام کو حاصل ہوئی ہے۔ دارالسلام کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ کے شائع کردہ قرآن مجید ، تفاسیر اور کتب ِ احادیث دنیا کے ہر ملک میں دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ یورپ میں دارالسلام کی کتب پڑھ کر لوگ بڑی تعداد میں حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔ 
 ترجمہ وحواشی میں دارالسلام کی اولین کوشش انگریزی زبان میں ’’ دی نوبل قرآن ‘‘ ہے۔ اس مختصر تفسیر کی تکمیل کی سعادت کا اعزازاللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر تقی الدین الہلالی اور ڈاکٹر محمد محسن خان کو بخشا۔ دور ِ حاضر میں یہ انگریزی زبان میں مقبول ترین کاوش ہے جسے دنیا بھر میں بے حد مقبولیت اور پذیرائی ملی ہے۔پیش نظر’’ تفسیر احسن الکلام ‘‘ اسی انگریزی کاوش کا آسان اور عام فہم اردو ترجمہ ہے۔ اسے مزید جامع اور بہتر بنانے کیلئے دارالسلام کی مایہ ناز تفسیر’’ احسن البیان ‘‘ سے بھی بعض مفید حواشی شامل کیے گئے ہیں۔ ’’ احسن الکلام ‘‘ کی پہلی طباعت میں قرآنی متن کے ترجمے کی غرض سے مولانا محمد جونا گڑھی  کے ترجمہ قرآن کو بہ ادنیٰ تصرف اختیار کیا گیا تھا۔ جبکہ ’’ احسن الکلام ‘‘ کے تازہ ایڈیشن میں دارالسلام کے علما اور محققین نے متن ِ قرآن مجید کا ازسرنو ایک  اردوترجمہ کیا ہے۔ اس ترجمے کو قرآنی متن کے قریب تر رکھنے اور اردو زبان کے روز مرہ کے سہل اور سلیلس استعمال  کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ ’’ احسن الکلام ‘‘ درج ذیل خصوصیات پر مشتمل ہے : 
٭اس تفسیر کا پندرہ سطری قرآنی متن الحمدللہ ہر قسم کی اغلاط سے پاک ، خطاطی اور کتابت کاشاہکار ہے۔ ٭ یہ ایڈیشن تلاوت وترجمہ کیلئے بھی نہایت مفید ہے جس میں متن اور ترجمے کا پوائنٹ بہت نمایاں ہے۔ ٭ حواشی میں بیشتر احادیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے ہی لی گئی ہیں، تفسیر ابن کثیر اور تفسیر قرطبی سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ ٭ تفسیر میں مذکور تمام احادیث واقوال کی تخریج تنقیح اور نظر ثانی کردی گئی ہے۔ ٭ ’’ تفسیر احسن الکلام ‘‘ طلباء‘ علماء اور عوام الناس کے لئے یکساں مفید ہے۔ ’’ تفسیر احسن الکلام ‘‘کو پڑھتے وقت قاری ثقل محسوس نہیں کرتا بلکہ تسلسل کے ساتھ پڑھتا اور سمجھتا چلا جاتا ہے۔٭ قرآن مجید میں بہت سی آیات ایسی ہیں کہ اگر وہ ایک موقع پر مختصر ہیں تو کسی دوسرے موقع پر مفصل ہیں لہذا تفسیر احسن الکلام میں ممکن حد تک ایک آیت کی تفسیر دوسری جگہ وارد تفصیلی آیات ہی سے کی گئی ہے۔ ٭بعض کتب تفاسیر میں احادیث کی صحت اور ضعف کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔حالانکہ ضعیف اور موضوع روایات نے دین میں بہت بگاڑ اور انتشار پیدا کیا ہے اورامت کے جسد واحد کو پارہ پارہ کیا ہے۔موضوع روایات نے امت کو کمزور کیا ہے ، ایسے لوگوں کو جنم دیا جو خود بھی گمراہ ہوئے اور امت کے ایک بڑے حصے کو بھی گمراہ کیا۔ایسے گمراہ فرقوں کو جنم دیا جنہوں نے امت مسلمہ کو بڑے بڑے فتنوں سے دو چار کر دیا ہے۔امت محمدیہ علیہ السلام کا یہ اتنا بڑا نقصان ہے جو دشمن بھی نہ کرسکتے تھے۔اسلئے موضوع اور ضعیف روایات سے استفادہ نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ’’ تفسیر احسن الکلام ‘‘ اختصار و جامعیت کا شاہکا ر ہے اور کتب تفسیر میں گراں بہا اور خوبصورت اضافہ ہے۔ یہ بہت سی کتب کا گلدستہ اور مجموعہ ہے۔ یہ ایک ایسا چمن ہے جہاں علم کا متلاشی ایک ہی وقت میں کئی تفسیروں کے پھولوں کی مہک سے محفوظ ہو سکتا ہے۔ لہذا یہ تفسیر ہر لائبریری اور ہر گھر کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں