لندن (تجزیاتی رپورٹ: خالد ایچ لودھی) کچھ عرصہ قبل ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے پاکستان جانے کی خبریں عام تھیں اور یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ پاکستان جا کر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے اور اب ان کے پاکستان سے باہر جانے کی خبریں ایک بار پھر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ آئین پاکستان کو تار تار کرنے، منتخب وزیراعظم کی حکومت کے خلاف شب خون مارنے، عدالت عظمٰی کے جج صاحبان کو گھروں میں نظر بند رکھنے اور پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونکنے جیسے اقدامات میں ان کا مرکزی کردار رہا ہے لیکن یہ امر افسوسناک ہے کہ پاکستان کا قانون اور آئین کس قدر بے بس ہو چکے ہیں کہ قومی نمائندے بھی ان کی پاسداری کروانے میں اپنا کردار ادا کرنے سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ صدر زرداری کی دولت سوئٹزرلینڈ میں پڑی تھی یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے گو اب اس دولت کا وجود وہاں نہیں ہے۔ یہ دولت کسی اور ملک منتقل ہو چکی ہے اس سلسلے میں وزیراعظم کو مستعفی ہونا پڑا اور اس مشہور زمانہ مقدمے پر قومی سرمایہ خرچ ہوا لیکن اس کا نتیجہ کیا صفر نکلا ہمیشہ صدارتی استحقاق آڑے آتا رہا سابق اور موجودہ صدر دونوں ہی اپنے استحقاق کی وجہ سے قانون و آئین کی زد میں صاف بچ رہے ہیں، استحقاق کی چھتری ان کو تحفظ فراہم کر رہی ہے آئین بنانے والے خود شرمندہ ہوں گے کہ آرٹیکل 6 کی شق پر عمل درآمد نہیں کروایا جا سکتا تو پھر یہ شق آئین پاکستان کا حصہ کیوں بنائی گئی تھی؟ دراصل یہ سارا معاملہ پاکستان کے وی آئی پی کلچر کی وجہ سے ہے۔ قانون کی گرفت صرف اور صرف عام شہری کے لئے ہے مراعات یافتہ طبقہ قانون کی گرفت سے آزاد رہا ہے اور شاید ہمیشہ آزاد ہی رہے گا۔ برطانیہ جہاں پاکستان کے سیاستدان خودساختہ جلاوطنی کے دن گزارتے ہیں اور ان کی دولت اور بے پناہ جائیدادیں بھی یہاں موجود ہیں اس امر کو بھی دیکھیں کہ یہاں برطانوی وزیر کو محض جھوٹ بولنے پر جیل جانا پڑ جاتا ہے اور اس سرزمین پر قانون و آئین کی حکمرانی قائم ہے کیا اس روایت کو پاکستان کے قومی نمائندے سرزمین پاکستان پر قائم کروا سکتے ہیں؟ مُک مُکا اور مفادات کی سیاست پاکستان کو مزید کمزور کرنے کا موجب بن رہی ہے۔
مشرف کیخلاف سنگین الزامات‘ قومی نمائندے بھی آئین کی پاسداری سے پہلو تہی کررہے ہیں : تجزیاتی رپورٹ
Jun 05, 2013