مسئلہ کشمیر پر سفارتی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت

آزاد کشمیر مسلم لیگ کے صدر راجہ فاروق حیدر نے وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف سے ملاقات کی ہے۔ انہیں ایکٹ 1974ء میں ترامیم اور آزاد کشمیر کے مالی‘ ترقیاتی امور کے بارے میں تجاویز اور گزارشات پیش کیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے ان امور کو طے کرنے کا یقین دلایا اور جلد آزاد کشمیر کا دورہ کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
راجہ فاروق حیدر نے ایکٹ 1974ء میں ترامیم اور آزاد کشمیر کے دوسرے مالی اور انتظامی امور پر وزیراعظم کی توجہ دلا کر آزاد کشمیر کے عوام کی ترجمانی کی۔ میاں نوازشریف آزاد کشمیر کا دورہ بحیثیت وزیراعظم اور بحیثیت اپوزیشن لیڈر کرتے رہے ہیں۔
وہ آزاد کشمیر کی ترقی میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں انہوں نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا :
’’وہ کشمیر کے مسئلہ کا حل سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق چاہتے ہیں ‘‘
یہ خواہش تو صرف بیانات دینے سے پوری نہیں ہوتی۔ ہم نے ان کالموں میں توجہ دلائی ہے کہ امریکی صدر بارک اوبامہ نے گذشتہ سال اس خواہش کا اظہار کیا تھا اور اس کا اظہار میاں نوازشریف کے اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کے دوران اس عالمی ادارہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے مطالبہ اور پھر امریکی صدر بارک اوبامہ سے ماقات میں اس مسئلہ کے حل کے لئے انپا کردار ادا کرنے کے مطالبہ میں بھی کیا تھا۔ یہ کشمیر کے مسئلہ پر اعلیٰ ترین سطح پر اچھی پیش رفت تھی۔
 اسی دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنر بانکی مون نے ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ کشمیر کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کی قراردادیں آج بھی ایجنڈا پر موجود ہیں۔
بانکی مون نے بھارت و پاکستان میں اس مسئلہ پر ثالثی کی پیشکش بھی کر دی تھی۔ عالمی قوتوں کے اعلیٰ ترین سطح سے کشمیر کے مسئلہ کے متعلق یہ بیانات او ان سے پیدا ہونے والے خوشگوار تناظر پر بھارت کمزور وکٹ پر آ گیا تھا۔ ہم اس خوشگوار تناظر کا فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ لیکن بھارت لابی متحرک ہو گئی تھی۔
اس لابی کے فوری رابطوں نے صدر بارک اوبامہ کو اپنی ثالثی کی پیشکش واپس لے کر بھارت و پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ خود مذاکرات کے ذریعہ اس تنازعہ کو حل کریں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی بھارتی دائو اپنی ثالثی کی پیشکش پر اصرار نہیں کیا لیکن ان دونوں اعلٰی ترین شخصیتوں کی طرف سے کشمیر کے مسئلہ پر دلچسپی اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ زندہ ہے۔
اگر ہماری وزارت خارجہ اور ہمارے حکمران اس تناظر میں اپنی سفارتی کوششیں تیز کر دیں اور کشمیری عوام کی طرف سے حق خودارادیت کی تحریک کو تیز کر دیں تو کشمیر کا مسئلہ ایک کلیدی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔
مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈا پر موجود ہے۔ ہم اپنے موقف کو اجاگر کریں اور ابتدائی طورپر 57 مسلمان ممالک کی حمایت حاصل کریں۔ پھر اسی پلیٹ فارم سے اسے عالمی قوتوں کے سامنے پیش کریں ۔ شرط یہ ہے کہ ہم اپنے ایمان کو تازہ کریں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...