سیاچن اور سرکریک نہیں مقبوضہ کشمیر سے بات شروع کی جائے

بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے دلی میں سکیورٹی فورسز کے اعلیٰ کمانڈروں اور فورسز سربراہان کے ساتھ ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ سکیورٹی افسران نے وزیر داخلہ کو بتایا کہ پاکستان کے ساتھ سیاچن اور سرکریک سے متعلق مسائل کو بھی حل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان 1947ء سے ہی بھارت کے ساتھ مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا خواہشمند ہے لیکن بھارت نے افہام و تفہیم کو چھوڑ کر شرپسندی اور تخریب کاری کا راستہ چن رکھا ہے۔ حکومت پاکستان آج بھی سیاچن اور سرکریک کے مسائل کا حل چاہتی ہے لیکن ان ایشو پر بات کرنے کا تب ہی فائدہ ہو گا جب مسئلہ کشمیر حل ہو گا جبکہ بھارت کشمیر کی بات آتے ہی مذاکرات کی میز کو اُلٹا دیتا ہے۔ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک سیاچن اور سرکریک پر بات چیت کے مثبت نتائج نکلنا ممکن نہیں ۔ لائن آف کنٹرول پر بھی حالات تب تک پُرامن نہیں ہو سکتے جب تک مقبوضہ وادی کے بارے کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ 67 سالوں سے بھارت اور پاکستان کے مابین مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے مگر بھارت کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ کی ہٹ دھرمی ترک کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔ اگر پاکستان اور بھارت کے مابین یہ بنیادی تنازعہ یو این قراردادوں کی روشنی میں حل ہو جائے تو دوسرے تنازعات خود ہی حل ہو جائینگے۔ بھارت اپنی کیل اور کانٹوں سے لیس سات لاکھ فوج کو مقبوضہ وادی سے نکالے اور مشرقی اور مغربی سرحدوں سے اپنے شرپسندوں کو دراندازی سے روکے تاکہ خطے میں امن قائم ہو لیکن بھارت ایک طرف سفاکیت اور جبر کی تمام حدوں کو عبور کر رہا ہے تو دوسری طرف دوستی کا ہاتھ بھی آگے بڑھاتا ہے۔ بھارت یاد رکھے مذاکرات اور سرحد پار دراندازی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

ای پیپر دی نیشن