’’ایک ساٹھ سالہ شخص کو کالا دھن سفید کرنے کے شبہ میں گرفتار کر لیا گیا (ترجمان لندن پولیس)۔ الطاف حسین کو مبینہ منی لانڈرنگ میں گرفتار کیا گیا (لندن ذرائع ابلاغ)۔ الطاف حسین لندن کے شہری ہیں، بے گناہ ثابت ہوئے تو انصاف ضرور ملے گا مگر لندن میں گرفتاری کے خلاف مظاہرہ نہیں کیا جا سکتا۔کارکن بے بس ہیں۔ لندن اور امریکہ کے لوگ تسلی بخش تفتیش کے بعد ہاتھ ڈالتے ہیں۔ الطاف حسین معصوم پائے گئے تو باعزت بری کر دئیے جائیں گے۔ امریکہ میں بھی لمبے ہاتھوں کی کارکردگیاں آئے روز منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ مجرم خواہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی اس کے جرائم پر کھل کر لکھنے اور بولنے کی مکمل اجازت ہے۔ گزشتہ دنوں نیویارک میں ایک پاکستانی امریکن ڈاکٹر کو لاکھوں ڈالروں کے فراڈ کے الزام میں گرفتار کرکے جیل میں قید کر دیا گیا ہے۔ ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر ایسے متعدد واقعات کا ذکر ملتا ہے جنہیں فراڈ کیس میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان میں پاکستانی ڈاکٹروں اور کاروباری افراد کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔ نیویارک اور امریکہ کی دیگر ریاستوں سے کئی پاکستانی امریکی شہری فراڈ کیس میں گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ ڈاکڑی ایک باوقار پیشہ ہے، افسوس اس شعبہ کے لوگ بھی فراڈ میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کریڈٹ کارڈ فراڈ بھی عام ہو چکا تھا، نائن الیون کے واقعہ کے بعد کریک ڈائون ہوا تو فراڈ کے مختلف واقعات منظر عام پر آئے۔ معمولی مزدور بھی امیر ترین شہری بن گئے حتیٰ کہ گوروں کی سیاست میں بذریعہ پارٹی فنڈز’’اینٹری‘‘ ماری۔ فراڈ اور دوسری شادی زیادہ دیر تک چھپے نہیں رہ سکتے۔ دوسری شادی کا فراڈ پہلی بیوی بے نقاب کر دیتی ہے جبکہ گوروں کے ملک میں دوسری بیوی ایک سنگین فراڈ ہے۔ ایف بی آئی نے کئی ماہ کی محنت کے بعد دو سو ملین ڈالرز کے کریڈٹ کارڈز میں ملوث پاکستانی سمیت مختلف کمیونٹی کے اٹھارہ افراد گرفتار کر لیے۔ کمبخت ملک سے فرار ہونے کی مہلت بھی نہیں دیتے۔ نیویارک میں پاکستانی امریکی ڈاکٹر عمران احمد کو خطرے کی بُو محسوس ہو گئی تھی لہٰذا اس نے دو ملین ڈالر پاکستان ٹرانسفر کر دیا اور خود بھی اگلی فلائیٹ سے پاکستان فرار ہونے کا منصوبہ بنا چکا تھا کہ ایف بی آئی نے نصف شب اس کے گھر چھاپہ مار کر اسے گرفتار کر لیا اور پاکستان بھاگ جانے کے خطرے کے پیش نظر عدالت نے ضمانت پر رہائی سے انکار کر دیا۔ اربوں ڈالرز سے تعمیر شدہ نیا گھر، گاڑیاں اور دیگر جائیدادیں بھی ضبط کر لی گئیں۔ نیویارک میں ہی مزید دو ڈاکٹر فراڈ میں ملوث پائے گئے۔ جعلی میڈیکل انشورنس بلز سے اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ فرضی مریض بنا لیتے ہیں۔ بُرائی کا انجام ہمیشہ بُرا ہوتا ہے۔ گزشتہ برس نیویارک میں ایک اور پاکستانی ثاقب خان گراسری سٹور بزنس میں 82 ملین ڈالرز کے فراڈ میں گرفتار ہو چکا ہے۔ اس شخص نے بھی کئی ملین ڈالر ہلیری کلنٹن اور بُش کی انتخابی مہم پر خرچ کیے۔ تمام تفصیل انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ ان معاملات میں پاکستانی شہریت ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستانیوں پر شبہ کیا جاتا ہے اور بدنصیبی سے ننانوے فیصد شبہات حقیقت ثابت ہوئے ہیں۔
یہ چند واقعات نہیں، اس طرح کے ان گنت واقعات موجود ہیں، برسوں کا حرام لمحوں میں ذلت و رسوائی کا باعث بن جاتا ہے۔ چند واقعات میں بمع بیگمات گرفتار کئے گئے اور ان کے بچے رشتے داروں کی کفالت میں تقسیم کر دئیے گئے۔گورے سوچ سمجھ کر ہاتھ ڈالتے ہیں اور جب ہاتھ ڈال لیں پھر کمبخت بھاگنے نہیں دیتے۔ جن پتوں پر تکیہ کیا جاتا ہے، وہی پتے ہَوا دینے لگتے ہیں۔ سیاسی و غیر سیاسی افراد گوروں کی پناہ میں بھاگے آتے ہیں اور کیفر کردار تک پہنچا دئیے جاتے ہیں۔ برطانیہ امریکیوں کا ’’نانکہ‘‘ ہے، قانون و انصاف میں زیادہ فرق نہیں۔ برطانیہ میں منی لاڈرنگ کی سزا کم از کم چودہ سال ہے، بھاگنے کا ارادہ بھانپ لیا جائے تو ضمانت پر رہا نہیں کرتے۔ گرفتاری کے بعد اکثر ملزمان بیمار ہو جاتے ہیں، انہیں مکمل طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ پاکستان سے کچھ لوگ سیاسی پناہ کے لئے باہر بھاگ جاتے اور واپسی ’’باکس‘‘ میں ہوتی ہے۔ پاکستان کے میڈیا میں بھی ایسے افراد موجود ہیں جو گوروں کے ملک میں سیاسی پناہ لے چکے ہیں اور واپس جا کر اینکر اور دانشور بنے ہوئے ہیں۔ پاکستانیوں پر بابائے قوم قائداعظمؒ کا عظیم احسان ہے۔ آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری نے قائداعظمؒ کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کئے۔ اس کی ویڈیو آج بھی انٹر نیٹ پرگردش کر رہی ہے۔ قائداعظمؒ نے مسلمانوں کو پاکستان دیا مگر بدنصیبی سے اس پر چند لوگ قابض ہو گئے۔ قائداعظم ؒ کے خلاف بولنے والے خود تو خاک ہو گئے مگر ملک نوچنے کے لئے اپنی نسلیں چھوڑ گئے۔ مغرب سے وفادار رہے مگر مغرب نے بے وفائی کی لیکن جب بھی وطن لوٹے وطن نے دو گز زمین مہیا کر دی۔ لندن والوں سے گزارش ہے کہ پاکستانی جاگیر داروں اور وڈیروں کو للکارنے والے کو انصاف مہیا کیا جائے۔ لندن اخبار کے مطابق لندن پولیس کے 70 سے زائد اہلکاروں نے منگل کے روز صبح پانچ بجے الطاف حسین کو ان کے گھر کی دیواریں پھلانگ کر دروازہ توڑ کر گرفتار کیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا الطاف حسین سے اظہار یکجہتی پردیسیوں کی باہمی محبت و ہمدردی کا ثبوت ہے۔ لندن میں ایم کیو ایم کا نہ کوئی مدرسہ ہے نہ سکول کہ اکائونٹس کا حساب صاف رہتا ۔