آج ارادہ تو کسی اور موضوع پر لکھنے کا تھا لیکن میرے ایک دیرینہ کرم فرما جناب محمد الیاس لودھی صاحب نے ’’تاریخی حقائق کچھ اور ہیں‘‘ میں غلط غلط کی کچھ اس طرح تکرار کی کہ مجھے مجبوراً وضاحت کرنا پڑی ورنہ اس میں وضاحت کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی کیونکہ ان کے طویل کالم میں فقط ایک فقرہ مجھ سے متعلق ہے، باقی سارا کالم ظہور پاکستان کے وقت جس پس منظر اور ان کے مشاہدات کی عکاسی کرتا ہے وہ نہ میرا موضوع تھے اور نہ ہی میں نے ان کا ذکر کیا تھا۔ میں کئی با رلکھ چکا ہوں کہ کوئی انسانی تحریر یا تحقیق حرف آخر نہیں ہوتی۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں خلوص نیت سے اپنے آپ کو محض ایک معمولی طالب علم سمجھتا ہوں جو نیک نیتی سے حقائق جاننے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ میرے نزدیک زندگی مسلسل سیکھنے کا عمل ہے اور انسان قبر تک سیکھتا ہی رہتا ہے اسلئے میری تحریر کو حرف آخر سمجھنا اور اپنے الفاظ پر اڑ جانا ان کا مسئلہ تو ہو سکتا ہے لیکن طالب علمانہ اپروچ اور رویہ نہیں۔ یہ تو تھی ایک عمومی بات اور اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔
پاکستان چودہ اور پندرہ اگست کی نصف شب معرض وجود میں آیا اس لئے ہم نے اپنا پہلا یوم آزادی پندرہ اگست کو منایا۔ پندرہ اگست 1947ء ہماری تاریخی جدوجہد کا اہم ترین سنگ میل اور تاقیامت زندہ رہنے والا دن ہے۔ پندرہ اگست کے دن ساری قوم ایک غیرمعمولی جذبے، ولولہ تازہ، احساس کامیابی اور خوشی سے سرشار تھی، اس روز پہلی بار پاکستان کا جھنڈا لہرایا جانا تھا اور اسے سلامی دی جانی تھی۔ تاریخی پس منظر میں مسلمان ہند و پاک نے اس لمحے کا صدیوں تک انتظار کیا تھا۔ اس تاریخی موقع پر صوبہ سرحد کی کانگریسی وزارت کے وزیراعلیٰ جناب ڈاکٹر خان صاحب کی اپنے مخصوص کانگریسی پس منظر میں صبح سویرے جھنڈا لہرانے کی تقریب میں نہ آنا حب پاکستان اور نئی مملکت سے وفاداری کے تقاضوں کی نفی تھی۔ میں نے اس موضوع پر کئی کالم لکھے جن میں پس منظر کی وضاحت کی اور صوبہ سرحد کے گورنر کنگھم کی ذاتی ڈائری کے اوراق کے حوالے دیئے جو برٹش انڈیا لائبریری لندن میں محفوظ ہیں۔ میں نے کنگھم کے خاندان سے اجازت لیکر اس فائل کی فوٹو کاپی بھی کروائی تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ میرے کرم فرما لودھی صاحب نے وہ کالم نہیں پڑھے اور انہوں نے فقط وہ کالم پڑھا اور اسکے چند الفاظ پر گرفت کی جس میں میں نے ضمناً اور سرسری ذکر کیا تھا کہ یوں بھی ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت اکثریت کی حمایت سے محروم ہو چکی تھی لیکن میں نے ہرگز نہیں لکھا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی حکومت واحد اس بنیاد پر ختم کی گئی کیونکہ ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کے خاتمے کی وجہ پاکستان کے جھنڈے کو سلامی نہ دینا تھی اور میں اس کا ذکر کئی بار کر چکا ہوں۔ یہی بات محترم لودھی صاحب بہ اصرار کہہ رہے ہیں۔ غیرمسلم آبادی کے ہندوستان چلے جانے کے بعد ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کا اکثریتی حمایت سے محروم ہونا ایک ضمنی فقرہ تھا جس کی وضاحت مجھ پر ہے۔ اس حوالے سے لودھی صاحب کے اعداد و شمار اور میرے اعداد و شمار میں تھوڑا سا فرق ہے۔ ظاہر ہے کہ میرا علم کتابی انفارمیشن اور تحقیقی حوالوں تک محدود ہے جبکہ لودھی صاحب کا فرمانا ہے کہ وہ قیام پاکستان کے وقت طالب تھے۔ میں مزید کسی بحث میں الجھے بغیر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بلاشبہ صوبہ سرحد کی اسمبلی میں 1946ء کے انتخابات کے نتیجے میں پچاس میں سے کانگرس نے (30) سیٹیں جیتی تھیں جن میں بارہ (12) اراکین اسمبلی کا تعلق مذہبی اقلیت سے تھا۔ اگرچہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صوبہ سرحد میں غیرمسلمان چھ فیصد تھے لیکن انہیں اسمبلی میں 24 فیصد نمائندگی دی گئی تھی۔ تقسیم ہند اور آبادی کے تبادلے کے نتیجے کے طور پر مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے اراکین ہجرت کر گئے۔ میرے دوست لودھی صاحب کو ان حقائق سے اتفاق ہے حالانکہ صوبہ سرحد کی (YEAR BOOK) کے مطابق 12 غیر مسلمان اراکین اسمبلی میں سے گیارہ ہندوستان منتقل ہوئے بارہواں تھا کوٹورام جو صوبہ سرحد ہی میں مقیم رہا۔ ڈاکٹر خان کی حمایت میں جمعیت علماء ہند کے دو اراکین اسمبلی اور دو مسلمان کانگرسی اراکین میاں جعفر شاہ اور فقیرا خان بھی شامل تھے جو حکومت کی حمایت سے دستبردار ہو گئے۔ 30 اراکین کی باقی ماندہ اسمبلی میں ڈاکٹر خان صاحب کو اٹھارہ کی حمایت حاصل تھی لیکن ان چار اراکین کے حمایت سے تائب ہونے کے بعد ڈاکٹر خان صاحب کی اکثریت اقلیت میں بدل گئی اور مسلم لیگ جس نے سترہ سیٹیں جیتی تھیں اکثریتی جماعت بن گئی۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کو پاکستان بنتے ہی ختم نہیں کیا گیا تھا بلکہ ایک ہفتے کے بعد 22 اگست کو ختم کیا گیا اور میری طالب علمانہ تحقیق کے مطابق اس وقت سیاسی پانی نہایت تیزی سے بہہ رہا تھا اور ان چار اراکین اسمبلی کی حمایت سے محرومی اور غیرمسلم اراکین کی ہندوستان منتقلی کے بعد ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت اکثریت سے محروم ہو چکی تھی۔ سویڈن کے ایک ممتاز سکالر ارلینڈ جانسن نے ’’انڈیا، پاکستان اور پختونستان‘‘ کے موضوع پر ایک نہایت اعلیٰ تحقیقی کتاب لکھی ہے جو غالباً اسکا پی ایچ ڈی کا تھیسس تھا۔ اسکی تحقیق کیمطابق کانگرس کے ٹکٹ پر منتخب ہونیوالے صوبہ سرحد اسمبلی کے سات اراکین نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور یوں قیوم خان کی مسلم لیگی حکومت کو اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہو گئی تھی چنانچہ جب مارچ 1948ء میں صوبہ سرحد کی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا تو قیوم خان اور مسلم لیگ واضح اکثریت میں تھے اور ڈاکٹر خان صاحب لیڈر آف دی اپوزیشن بن گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ سیاسی پیشرفت بعدازاں ہوئی اس لئے یہ ڈاکٹر خان صاحب کی کانگریسی اقتدار کے خاتمے کا سبب نہیں تھی۔ ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کو پاکستان کے پرچم کشائی کی پہلی تقریب سے غیرحاضری پر ختم کیا گیا۔ یہ گورنر جنرل کا آئینی اختیار تھا، کوئی ماورائے آئین اقدام نہیں تھا۔ ریفرنڈم کے دوران ڈاکٹر خان صاحب اور عبدالغفار خان کہتے رہے تھے کہ اگر وہ ریفرنڈم میں شکست کھا گئے تو استعفیٰ دے دینگے لیکن ریفرنڈم میں شکست کھانے کے بعد انہوں نے اپنا موقف بدل لیا جو جمہوری اصولوں کے منافی تھا۔ مسلم لیگ قیام پاکستان سے قبل انگریز حکومت سے اسی بنیاد پر ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرتی رہتی تھی لیکن کانگریسی دبائو کے تحت انگریز حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا۔ پندرہ اگست 1947ء کو ڈاکٹر خان صاحب نے پاکستان سے وفاداری کو مشکوک بنا دیا چنانچہ سات دن بعد یہ اقدام کرنا پڑا۔ پاکستان کی پہلی پرچم کشائی سے ڈاکٹر خان صاحب کی غیرحاضری کسی سازش یا دبائو کا نتیجہ تھی یا نہیں یہ بحث لاحاصل اور بے معنی ہے کیونکہ اگر خان صاحب کے دل میں پاکستان کی محبت کا جذبہ موجود ہوتا تو وہ ہر قسم کے دبائو اور سازش کو ناکام بنا کر وہاں پہنچتے، وہ صوبے کے وزیراعلیٰ تھے، بااختیار تھے، انہیں کوئی نہیں روک سکتا تھا، صوبائی سربراہ کی حیثیت سے انکی شمولیت نہایت اہم تھی لیکن انہوں نے یہ موقع گنوا کر تاریخ کے فیصلے کا رخ اپنے خلاف کر لیا۔ میں نے کبھی حب الوطنی کے فتوے نہیں دیئے اور نہ ہی ڈاکٹر خان صاحب کو اس سے محروم رکھا، میں ان کا احترام کرتا ہوں لیکن سوچنے کی بات فقط اتنی سی ہے کہ جو صوبائی وزیراعلیٰ قیام پاکستان کے دن پہلی پرچم کشائی کی تقریب کا بائیکاٹ کرے اور نئی آئینی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا مرتکب ہو اسے آپ کیا کہیں گے اور خاص طور پر جب اسکا سیاسی پس منظر کانگریسی اور قیام پاکستان کی مخالفت سے داغدار ہو؟
میں نے جو عرض کرنا تھا کر دیا، اب میں مزید اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا۔ قارئین نتائج خود اخذ کر لیں۔